قرآن کے ايک دعوے کا مفہوم

30

سوال

قرآن کے اس دعوے کا کیا مطلب ہے کہ اگر تم اسے خدا کا کلام نہیں سمجھتے تو اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھاؤ؟ میرا سوال یہ ہے کہ انسان قرآن کی مثل کلام کیوں نہیں بنا سکتا ، میرا خیال ہے کہ وہ بنا سکتا ہے خواہ کچھ غلط سلط ہی بنا دے؟

جواب

قرآن کے اس دعوے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو سمجھتے ہو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم جو کلام لائے ہیں، یہ انسانی کاوش ہی ہے، یہ خدا کا کلام نہیں ہے اور اس میں خدائی صفات کا ظہور نہیں، یعنی یہ خدائی خوبیوں کا حامل اور ہر غلطی سے مبرا کلام نہیں ہے تو ایسا ہی کلام تم بھی بنا کر دکھا دو۔ پھر اگر تم نہ بنا سکو تو اس کلام کی آنکھوں سے نظر آنے والی عظمت کو مانو اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرو۔

استاذ محترم غامدی صاحب قرآن مجید کے اسی دعوے سے متعلق سورہ بقرہ کی آیت ٢٣ کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”…تم اگر اسے خدا کی کتاب نہیں سمجھتے تو اپنی ہدایت اور اسلوب بیان کے لحاظ سے جس شان کا یہ کلام ہے، اس شان کی کوئی ایک سورہ ہی بنا کر پیش کر دو۔ تمھارے گمان کے مطابق یہ کام اگر تمھاری قوم کے ایک فرد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر سکتے ہیں تو تمھیں بھی اس میں کوئی دقت نہ ہونی چاہیے۔ اپنے متعلق یہ قرآن کا چیلنج ہے جو اُس نے اپنے اولین مخاطبین کو دیا اور اُن میں سے کوئی بھی اس کا سامنا کرنے کی جرأت نہ کر سکا۔” (ماہنامہ اشراق، مارچ١٩٩٩،٩)

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-01

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading