سوال
ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر ایمان کی حالت میں موت آ جائے تو صحیح ہے، ورنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے۔ جبکہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اتناروایت پسندہے کہ اگر عیسائی کے ہاں پیدا ہوتا ہے تو ساری عمر عیسائی ہی رہتا ہے، اور اگر ہندو کے ہاں پیدا ہوتا ہے تو ساری عمر ہندو ہی رہتا ہے اور کسی دوسرے کے ایمان و عقیدے کی طرف نہیں دیکھتا۔ جب انسان اتنا روایت پسند ہے تو پھر اتنی سخت سزا کیوں رکھی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا؟
جواب
آخرت میں جس بنیاد پر مواخذہ ہو گا وہ یہ ہے کہ ایک مسیحی ، ہندو یا مسلمان جس چیز پر اپنی زندگی بسر کر رہا تھا جو اس نے اپنے والدین سے پائی تھی تو کسی خاص موقع پر اس کی عقل یا اس کے علم نے اس کے سامنے ایک سوال رکھ دیا تو اس نے اس موقع پر کیا رد عمل ظاہر کیا؟اسی طرح سے اگر کوئی دعوت یا کوئی پیغام ،کوئی نئی بات اس تک پہنچی، دین اور مذہب کے بارے میں کوئی حقیقت اس کے سامنے آئی تو اس نے کیا رد عمل ظاہر کیا؟ یہ ہے وہ بنیاد جس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ کریں گے۔قرآ ن نے بڑے مذاہب کا نام لے کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ اگر لوگوں کا اللہ پر سچا ایمان ہے، وہ قیامت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ جی رہے ہیں اور اچھا عمل کر رہے ہیں تو اللہ کے لیے ان کے ہاں نجات کی ضمانت ہے بشرطیکہ انھوں نے کسی بڑے جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو ۔جس طرح قتل ایک بڑا جرم ہے، بدکاری کو زندگی کا وطیرہ بنا لینا ایک بڑا جرم ہے۔ اسی طرح ایک بہت بڑا جرم یہ ہے کہ ایک پیغمبر کے بارے میں جب آپ پر واضح ہو گیا کہ وہ خدا کا سچا پیغمبر ہے اور آپ نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔یعنی جب آپ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ مسیح علیہ السلام خدا کے سچے پیغمبر ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے پیغمبر ہیں، پھر بھی آپ نے جانتے بوجھتے ، ضد کی وجہ سے ان کو ماننے سے انکار کر دیا تو تب آپ مواخذے میں آئیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام لوگوں سے جتنی حقیقت ان تک پہنچی ہے، اس کی بنیاد پر مواخذہ (جواب دہی)کریں گے۔اس کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے کہ جس کو جتنا علم ملا ہے، اس کی بنیاد پر خدا اس سے پوچھے گا۔
مجیب: Javed Ahmad Ghamidi
اشاعت اول: 2015-06-20