سوال
ایک روایت ہے جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فارس کے لوگوں کو دیکھا جو کہ داڑھی مونڈھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس روایت کی دینی حیثیت کیا ہے؟
جواب
آپ نے اس روایت کے بارے میں پوچھا ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے چہروں کی طرف نہیں دیکھا جو داڑھی منڈھے تھے۔
یہ روایت کسی حدیث کی کتاب میں نہیں ہے۔ تاریخ کی مشہور کتاب البدایہ والنہایہ میں ابن کثیر نے ایک واقعہ نقل کیا ہے جس ایک حصہ وہ ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔ تاریخی روایات پر اس طرح تحقیق نہیں کی جاتی جس طرح احکام یا دین کے کسی پہلو سے متعلق روایات کی کی جاتی ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں ہمیں محدثین کی آرا نہیں ملتی۔
ابن کثیر نے جس واقعے کو بیان کیا ہے اس کے مطابق کسری ایران کے پاس جب حضور کا نامہ پہنچا تو اس نے اسے پھاڑ دیا اور اپنے گورنر کو لکھا کہ دو آدمی بھیجے جو حضور کو لے آئیں۔ یہ دو آدمی جب مدینہ پہنچے اور حضور سے ملے تو ان کی داڑھیاں منڈھی ہوئی تھیں اور مونچھیں بڑی بڑی تھیں۔ آپ نے انھیں دیکھنا پسند نہیں کیا اور پوچھا تمھیں ایسا کرنے کا کس نے کہا ہے تو انھوں نے جواب دیا ہمارے آقا(کسری) نے ہمیں ایسا کرنے کا کہا ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا: میرے آقا نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کتروانے کا کہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر، ج4، ص 270)(بحوالہ الجامع الکبیر)
اس واقعے میں جس طرح داڑھی کا ذکر ہے اسی طرح مونچھوں کا بھی ذکر ہے۔ جس طرح یہ ممکن ہے کہ آپ کو ان کا بے داڑھی ہونا پسند نہ آیا ہو اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو ان کی بے محابا بڑھی ہوئی مونچھیں اچھی نہ لگي ہوں۔ آپ نے بالعموم مونچھوں کے تقابل میں داڑھی کی بات کی ہے لہذا کچھ علما کی یہ رائے ہے کہ حضور کو اصلا متکبرانہ ہیئت پسند نہیں تھی۔ یہ روایات اسی پہلو کو بیان کرتی ہیں۔
داڑھی دین میں ایک دینی عمل کے طور پر مطلوب ہے اس کے لیے یہ روایت کافی دلیل نہیں ہے۔ میرا رجحان یہ کہ داڑھی فطرت کا حصہ ہے۔ اللہ نے داڑھی مردوں کے چہرے پر اگائی ہے تو اسے رکھنے کے لیے ہی اگائی ہے۔ غالبا اسی وجہ سے حضور نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور آپ اسے رکھنے ہی کو پسند فرماتے تھے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-13