سوال
میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا پرائز بانڈ کی رقم حلال ہوتی ہے یا حرام۔ برائے مہربانی تفصیل سے اس مسئلے پر روشنی ڈالیے۔
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
میری رائے میں انعامی بانڈز کی رقم استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ جو ئے میں انسان اپنی رقم اس لالچ پر داؤ میں لگاتا ہے کہ کسی محنت کے بغیر دوسرے فریق کی زیادہ بڑی رقم اس کے ہاتھ آ جائے گی۔ قرآن کی رو سے یہ اکل الاموال بالباطل کا ایک طریقہ ہے۔ انعامی بانڈز میں اگرچہ انسان کی اپنی لگائی ہوئی رقم تو خطرے میں نہیں ہوتی، لیکن کسی محنت کے بغیر مال کمانے کا جذبہ اور داعیہ پوری طرح موجود ہے۔ اس لحاظ سے اس میں قمار یعنی جوے کے ساتھ مکمل ظاہری مماثلت اگرچہ نہیں پائی جاتی، لیکن اس کی روح ضرور پائی جاتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ انعامی بانڈز کی حقیقی نوعیت میرے خیال میں حکومت کو دیے گئے قرض کے وثیقے کی ہے، کیونکہ حکومت رقم کی ضرورت پڑنے پر انعامی بانڈز جاری کر کے لوگوں سے رقم وصول کر کے اس سے اپنی ضروریات پوری کر لیتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ انعام درحقیقت قرض دینے والوں کے لیے ایک زائد منفعت کے لالچ کی حیثیت رکھتا ہے اور یوں اس میں سود کے ساتھ بھی بہت قریبی مشابہت موجود ہے۔ ان وجوہ سے، بعض تکنیکی فقہی وجوہ سے اس رقم کو صریح حرام نہ بھی کہا جا سکے تو بھی تقویٰ اور احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اسے استعمال میں لانے سے گریز ہی کیا جائے۔والله اعلم بالصواب
مجیب: Ammar Khan Nasir
اشاعت اول: 2015-10-11