تمدنی معاملات میں پیغمبر کی اتباع

15

سوال

حدیث میں ہم اخلاقی اور تمدنی، دونوں طرح کے معاملات کا ذکر دیکھتے ہیں۔ اخلاقی امور تو بلاشبہ ہمارے لیے قابل اتباع ہیں، لیکن کیا تمدن کے بارے میں اتباع لازم ہے؟ مزید یہ کہ اگر ہمارا تمدن انتہائی بگاڑ کا شکار ہو جائے تو کیا ہم دور نبوی کے تمدن کی پیروی کریں گے؟

جواب

اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بالکل واضح کر دی تھی کہ میں دین دینے کے لیے آیا ہوں، تمھیں میری اتباع دین ہی کے معاملے میں کرنی ہے، دنیا کے معاملات میں تم پر میری اتباع ہرگز لازم نہیں ہے۔

جہاں تک تمدن میں بگاڑ کا تعلق ہے تو ہر تمدن میں بگاڑ بھی ہو گا اور اچھی روایتیں بھی رہیں گی۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ سارے کاسارا تمدن بگاڑ کا شکار ہوجائے۔ اگر ایسا ہوگیا ہے تو میرا خیال ہے کہ اس وقت قیامت آجانی چاہیے۔ چونکہ دنیا میں خیروشر کی کشمکش برپا ہے، اس لیے دونوں طرح کی روایتیں باقی رہیں گی۔ اس صورت حال میں کرنا یہ چاہیے کہ اپنے تمدن اور اپنی تہذیب میں سے اچھی باتیں اپنا لی جائیں اور بری باتوں کے بارے میں صرف نظر سے کام لیا جائے۔

رہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمدن کو اختیار کرنے کی تو اس میں اور موجودہ تمدن میں بہت زیادہ فرق واقع ہو چکا ہے۔ نہ اب وہ زندگی رہی ہے، نہ اس کے وہ لوازم رہے ہیں۔ تاہم قدیم تمدن کی کسی روایت سے اگر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے تو ضرور اٹھانا چاہیے۔ (جون ٢٠٠٤)

مجیب: Javed Ahmad Ghamidi

اشاعت اول: 2015-06-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading