کیا رسولوں کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ غامدی صاحب کے نقطۂ نظر میں تضاد؟

10

سوال

السلام علیکم،

غامدی صاحب عموماً ’’قانونِ رسالت‘‘ پر زور دیتے ہیں جس کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو لازماً غلبہ عطا فرماتا ہے، اور ان کے مخالفین رسولوں کو گزند نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ ہر دم اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں۔

دوسری طرف، قرآن مجید میں سورۂ المائدہ (5:70)، آل عمران (3:183)، اور البقرہ (2:187) میں بنی اسرائیل کا ذکر آتا ہے جنہوں نے کچھ ’رسل‘ کو (ان کے پیغام سے ناپسندیدگی کی بنا پر) قتل کر دیا۔ یہ بات بظاہر قانونِ رسالت سے متصادم نظر آتی ہے، اور مزید یہ کہ سورۂ مجادلہ (58:21) اور سورۂ غافر (40:51) کے بھی خلاف معلوم ہوتی ہے۔

براہِ کرم اس تضاد کی وضاحت فرمائیں۔

شکریہ


جواب

السلام علیکم،

آپ کے سوال کا شکریہ۔

آپ نے جن آیات کی نشاندہی کی ہے، اُن میں لفظ ’رسول‘ (اور اس کی جمع ’رسل‘) اپنے عام لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی پیغام پہنچانے والا۔ غامدی صاحب کے بیان کے مطابق، یہ لفظ دو سطحوں پر بولا جاتا ہے: اوّل عام عربی مفہوم کے اعتبار سے، جس میں فرشتے اور نبی، دونوں ’رسل‘ کہلاتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں؛ اور دوم، ایک خاص اصطلاحی مفہوم میں، جس کے تحت ’رسول‘ نبیوں کی اُس منفرد جماعت کو کہا جاتا ہے جو اپنی قوم کے لیے خدا کی ادلالت اسی دنیا میں ظاہر کرتی ہے۔

قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ لفظ فرشتوں کے لیے استعمال ہوا ہے (مثلاً سورۂ التکویر 81:19، سورۂ فاطر 35:1 اور سورۂ الحج 22:75)، اور کئی جگہ نبیوں کے لیے (مثلاً سورۂ البقرہ 2:285، سورۂ الانعام 6:130 اور سورۂ الاعراف 7:35)۔ جب یہ لفظ خاص اصطلاحی معنوں میں آئے تو اُس سے مراد وہ عظیم الشان ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ایک قوم کے پاس بھیج کر اُس قوم کے لیے حتمی فیصلے کا سبب بناتا ہے، یعنی سزا یا جزا کا فیصلہ دنیا ہی میں صادر ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس اصول کا ذکر سورۂ مجادلہ (58:20–21) میں ملتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے عداوت رکھنے والے بالآخر مغلوب ہو کر رہتے ہیں اور اللہ نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔

یہاں غلبے سے مراد یہ ہے کہ رسولوں کی بعثت کے بعد جو کشمکش حق و باطل کے مابین برپا ہوتی ہے، اُس میں جو لوگ رسولوں کے مقابلہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں، وہ خدا کی عدالت کی زد میں آ جاتے ہیں اور سزا کے طور پر لازماً شکست کھاتے اور ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔

بنی اسرائیل میں، اصطلاحی معنوں میں صرف دو رسول مبعوث ہوئے: حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ ان کے مابین جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے، وہ نبی تو تھے مگر اصطلاحی معنوں میں رسول نہ تھے، لہٰذا اُن پر قوم کی جانب سے ردّ عمل یا حتیٰ کہ قتل تک کی نوبت آ سکتی تھی—اور قرآن مجید میں ایسے واقعات کا ذکر موجود ہے۔

مزید برآں، یہ تصور کہ ’’رسول کبھی قتل ہو ہی نہیں سکتا،‘‘ غامدی صاحب کا مؤقف نہیں ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات (سورۂ الرعد 13:40؛ الزخرف 43:41–42؛ آل عمران 3:144) سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ رسول کو دنیاوی عذاب کے ظہور سے پہلے بھی وفات یا حتیٰ کہ قتل کا امکان درپیش ہو سکتا ہے، لیکن اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اُس رسول کے ذریعے اپنی قوم پر اتمامِ حجت (یعنی حق کا پوری طرح واضح ہو جانا) ہو چکا ہو۔ مثال کے طور پر، غزوۂ اُحد کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلی، تو مسلمانوں میں بددِلی پھیل گئی۔ اس موقع پر قرآن نے صاف بتایا کہ رسول کی وفات یا قتل کا امکان فی نفسہٖ خارج از بحث نہیں؛ اصل سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو کیا تم دین سے پھر جاؤ گے؟ (دیکھئے آل عمران 3:144)

نیز، یہ بھی واضح رہے کہ اس مرحلے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم پر حق پوری طرح واضح ہو چکا تھا، جسے اصطلاح میں اتمامِ حجت کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر فرض کر لیا جائے کہ حضورؐ اس موقع پر وفات پا جاتے یا—العیاذ باللہ—قتل کر دیے جاتے، تو یہ امکان تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی اور نبی یا رسول کے ذریعے شریعت کی تکمیل فرما دیتا۔ تاہم عملاً ایسا نہیں ہوا۔ البتہ اس سے پہلے کہ ایک رسول اپنی قوم پر اتمامِ حجت مکمل کر لے، اُس کا قتل ہو جانا یا وفات پا جانا اُس کے مشن کے منافی ہوتا ہے، کیونکہ یہی اتمامِ حجت اُس کی بعثت کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔

آخر میں، یہ بھی یاد رہے کہ اگرچہ قرآن مجید میں ایسے متعدد مقامات ہیں جہاں انبیاء کو ایذا پہنچانے یا قتل کیے جانے کی کوشش کا ذکر ملتا ہے، مگر ان میں کہیں بھی صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا کہ کوئی رسول (اصطلاحی معنوں میں) فی الواقع قتل کیا گیا ہو۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو قرآن کے بیان میں کوئی ایسی مثال موجود نہیں جس میں کسی اصطلاحی رسول کے قتل کی حتمی تصدیق ہوتی ہو—گو اس کا امکان نظری طور پر رد نہیں کیا گیا۔

امید ہے کہ اس وضاحت سے آپ کا سوال حل ہو گیا ہوگا۔

والسلام،

مشفق سلطان

مشفق سلطان
WRITTEN BY

مشفق سلطان

مشفق سلطان ادارہ المورد میں بطور اسسٹنٹ فیلو خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور المورد کی سوالات کی سہولت کے نظم و نسق کے ذمہ دار ہیں۔ ادارے میں ان کی ذمہ داریوں میں علمی تحقیق، تصنیف و تالیف، اسلام کے مختلف پہلوؤں پر تعلیمی مواد کی تیاری اور المورد کو موصول ہونے والے سوالات کے جوابات تیار کرنا شامل ہیں۔ فی الوقت وہ جاوید احمد غامدی صاحب کی اہم تصانیف "میزان" اور "البیان" کا ہندی زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ مشفق صاحب مذاھب عالم، ان کے نظریات اور باہمی تعلقات میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسلام، مسیحیت اور ہندومت کے حوالے سے متعدد علمی مقالات تحریر کیے ہیں۔ مشفق سلطان 2018 سے ادارہ المورد میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading