سنت ، عقیقہ اور موسیقی ، شاعری

32

سوال

غامدی صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں
عقیقہ کے متعلق کہا تھا کہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی
کہا تھا کہ لوگوں نے سنت کی غلط تاویلات کی ہیں۔ کیا میں غامدی صاحب سے
پوچھ سکتا ہوں کہ سنت کا لغوی مطلب کیا ہے اور سنت نبوی سے کیا مراد ہے؟
صرف قرآن ہی کے بتانے کو سنت مان لیا جائے تو پھر حدیث کا کیا فائدہ؟ انھوں
نے موسیقی کے بارے میں بھی کہا تھا کہ یہ کوئی برا عمل نہیں ہے، اگر اسے
صحیح استعمال کیا جائے۔ ایک تو انھوں نے موسیقی اور شاعری کو ایک ہی پیمانے
میں ڈال دیا۔ پھر مجھے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال
کیا ہے؟

جواب

پہلی بات تو میں یہ واضح کر دوں کہ آپ نے جن الفاظ میں استاد محترم کا مدعا بیان کیا ہے، وہ ان کے مزاج کے مطابق نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ بہرحال ان سے آپ کی الجھن سمجھ میں آتی ہے۔

سنت کے لغوی معنی طریقے اور راستے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس کے معنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ دینی طریقے کے ہیں۔ استاد محترم نے اپنی کتاب ”میزان” میں سنت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

”سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔” (14)

اس تعریف سے پہلے انھوں نے قرآن کے ساتھ سنت کو بھی باقاعدہ ماخذ کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

”اِس (دین) کے ماخذ کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی وعملی تواتر سے منتقل ہو ا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:1۔ قرآن مجید2۔ سنت” (میزان13)

ان اقتباسات سے بالکل واضح ہے کہ استاد محترم صرف قرآن مجیدہی کو دین کا ماخذ نہیں سمجھتے ، بلکہ سنت سے بھی اسی طرح دین اخذ کرتے ہیں، جس طرح قرآن مجید سے کرتے ہیں۔ امید ہے ،ان اقتباسات سے آپ کایہ اشکال دور ہو گیا ہوگا۔

عقیقہ کے بارے میں یہ اختلاف ہمیشہ سے ہے کہ یہ کوئی مستقل دینی حکم ہے یا نہیں۔ فقہ کی مشہور کتاب ”بدایة المجتہد ونہایة المقتصد” میں امام ابن رشد نے فقہی آرا کا خلاصہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

”ایک گروہ نے ، جس میں ظاہری علما شامل ہیں ، عقیقہ کو واجب قرار دیا ہے۔ جمہور نے اسے سنت کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ اسے فرض مانتے ہیں نہ سنت۔ ایک قول ہے کہ اُن کے قول کا ماحصل ہے کہ یہ محض نفل ہے۔” (ترجمہ: ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی156۔157)

استاد محترم کی راے امام ابوحنیفہ کے موافق ہے۔ وہ بھی اسے ایک نفلی قربانی سمجھتے ہیں۔

موسیقی کے حوالے سے آپ کا اشکال یہ ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال کیا ہے؟ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موسیقی کی رائج صورتوں میں تو قباحت ہی قباحت نظر آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ گانوں کی شکل میں جو موسیقی ہر جگہ سنی اور سنائی جا رہی ہے ، اسے قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک بھی اس طرح کی موسیقی سے پرہیز ہی کرنا چاہیے ، لیکن دین کے ایک عالم کو اصولی بات بھی بتانا پڑتی ہے۔ اصولاً موسیقی کو ناجائز قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ موسیقی کے عمومی استعمال میں جو قباحت موجود ہے ، اسے سامنے رکھتے ہوئے استاد محترم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اگر استعمال درست نہ ہو تو یہ گنا ہ ہے۔ جائز موسیقی کی بعض صورتیں ہمارے ہاں بھی موجود ہیں، جیسے جنگی اور ملی ترانے ، حمدیہ اور نعتیہ کلام ، اچھے مضامین کی حامل غزلیں اور نظمیں ، جنھیں آلات موسیقی کے ساتھ اور فن موسیقی کے مطابق گایا جاتا ہے ، موسیقی کے صحیح استعمال کی مثالیں ہیں۔

شاعری اور موسیقی دو الگ الگ فن ہیں، لیکن ان کو یکجا بھی پیش کیا جاتا ہے ، اس لیے ان کا ذکر ایک ساتھ ہو جاتا ہے۔ ان میں ایک اور حوالے سے بھی مشابہت ہے۔ موسیقی کی طرح شاعری بھی ایک فن لطیف ہے۔ جس طرح شاعری میں اعلیٰ اورادنیٰ ، علمی ، عاشقانہ اور سماجی معاملات نظم کیے جاتے ہیں ، اسی طرح موسیقی بھی عمدہ اور کم تر مظاہر رکھتی ہے۔ جس طرح شاعری کی بعض صورتیں گناہ ہیں ، اسی طرح موسیقی کی بعض صورتیں بھی گناہ ہیں۔ غرض یہ فنون لطیفہ تلوار کی طرح ہیں۔ استعمال کرنے والا چاہے تو اسے جہاد میں استعمال کرکے جنت خرید لے اور چاہے تو اسے کسی بے گناہ کو قتل کر کے جہنم واصل ہو۔

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-08-03

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading