سوال
انسان کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ہے۔ وہ انصاف کا ایک تصور بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ یعنی یہ اس کی فطرت میں موجود ہے۔ اگر یہی حقیقت ہے اور واقعی یہی ہے تو اس حقیقت کا ایک تقاضا ہے، ایک نتیجہ ہے اور وہ یہ کہ اس ظالم دنیا کی جگہ (خدا تعالی کے منصف ہونے کی وجہ سے) کوئی ایسی دنیا وجود پذیر ہو جہاں نیکی کا نتیجہ اچھا اور برائی کا نتیجہ برا نکلے۔ اس وجہ سے قیامت کا تصور ایک ایک واضح حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ میرا سوال یہاں پہ یہ ہے کہ ہم اس ساری بحث کے نتیجے کے طور پر قیامت کی جگہ نروانا یا ایسی ہی کسی فلاسفی کو کیوں نہ مانیں۔ اور قیامت ہی کو اس کا فطری تقاضا کیوں قرار دیں۔
جواب
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عقل کے اقتضا اور عقل کے حاصلات میں فرق ہے۔ عقل کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے سوالات کا حتمی جواب اپنے بل پر حاصل کر سکے۔
اس دنیا کا جائزہ ہمیں اس جگہ تک ضرور پہنچاتا ہے کہ یہ دنیا انصاف فراہم نہیں کر سکتی۔ لیکن یہ انصاف کیسے فراہم ہوگا اس کا جواب یہ عقل نہیں دے سکتی۔ اس کا صحیح جواب صرف وہی ہستی دے سکتی ہے جس نے اس دنیا کو تخلیق کیا ہے اور اس کا ایک منصوبہ بھی بنایا ہے۔ خالق کائنات نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے اس کا اہتمام کیا ہے۔ چنانچہ اس ذریعے سے جو جواب ہمیں ملا ہے وہ یہی ہے کہ اس دنیا کو ختم کرکے قیامت برپا کی جائے گی اور وہاں اعمال کا حساب اور جزا وسزا ہو گی۔
آپ نے جو تقابل کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ قیامت اور نروان دونوں کو عقلی نتیجے کے طور پر دیکھ رہے ہو۔ نروان کا تصور ہو یا اواگون کا تصور ان کی بنیاد وحی پر نہیں ہے۔ جبکہ قیامت کے تصور کی بنا وحی پر ہے۔ عقل صرف یہ بتا سکتی ہے کہ جزا وسزا ہونی چاہیے۔ یہ بتانے کے لیے کہ اس کا طریق کیا ہو گا علم غیب کی ضرورت ہے جو اس کی رسائی میں نہیں ہے۔ چنانچہ عقل نے جو بھی جواب بنائے ہیں وہ محض قیاس اور اٹکل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وحی کے مقابلے میں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-13