ایک وتر کا جواز

16

سوال

بعض لوگ عشا کی نماز میں ایک وتر بھی پڑھ لیتے ہیں۔ کیا ایک وتر بھی پڑھا جا سکتا ہے؟

جواب

ایک وتر پڑھنے کا نقطۂ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ماخوذ نہیں ہے ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے فہم پر مبنی ہے۔ بعض روایات میں ‘اوتر بواحدة’ (ایک سے طاق کر لو)کے الفاظ آئے ہیں۔ اگر اس کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ایک رکعت پڑھ لو،جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے تو ایک وتر پڑھنا حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس جملے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز کو طاق پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ کسی نماز کو طاق کرنے کا کم از کم مطلب یہ ہے کہ دو کو تین کیا جائے۔ امام مالک نے یہی راے دی ہے کہ یہ نماز کم از کم تین رکعت ہے۔

یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ وتر عشا کی نماز کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ اپنی اصل کے لحاظ سے تہجد کی نماز ہے جس کی کم از کم مقدار یعنی تین رکعات کو عشا کے ساتھ اس لیے ملا دیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کے ساتھ ہی تہجد پڑھنے کی رعایت بھی دی ہوئی ہے۔

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-08-05

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading