سوال
اگر متوفي کي صرف بيٹياں ہوں اور وراثت کا دو تہائی قرآن کي روسے انھيں مل جاۓ ئے تو باقي بچنے والا ترکہ کس کو ديا جائے گا؟
جواب
قرآن مجيد ميں ترکے کے حصے ” اقرب نفعا ” کے اصول پر مقرر ہوئے ہيں۔ استاد محترم نے اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے اپني کتاب قانون معيشت ميں لکھا ہے:
” اس طرح يہ رہنمائي بھي ضمنا اس آيت سے حاصل ہوتي ہے کہ ترکے کا کچھ حصہ اگر بچا ہوا رہ جائے اور مرنے والے نے کسي کو وارث نہ بنايا ہو تو اسے بھي ” اقرب نفعا “ہي کو ملنا چاہيے۔ مسلم کي ايک روايت ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے يہي بات فرمائي ہے: الحقوا الفرائض باھلھا ، فما ترکت الفرائض ، فھو لاولي رجل ذکر (رقم 1615) ” وارثوں کو ان کا حصہ دو ، پھر اگر کچھ بچے تووہ قريب ترين مرد کے ليے ہے۔”
اس سے معلوم ہوا کہ صرف بيٹيوں کے باپ کے پاس کسي کو اس بچے ہوۓ ترکے کا وارث بنانے کا اختيار حاصل ہے۔ البتہ اگر اس نے وارث نہ بنايا ہو تو مرنے والے کے قريب ترين مرد رشتے دار کو يہ بچا ہوا ترکہ ملے گا۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-15