نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے خدا سے مانگنا

38

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دے کر کچھ مانگ سکتے ہیں؟ جیسے کہ ہم کہیں کہ اے اللہ مجھے محمدؐ کے وسیلہ سے فلاں چیز عطا فرما۔ کیا ایسا کہنا جائز ہے؟ اور مزید یہ کہ کیا ہم اپنی دیواروں پر جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں سے مزین جو اشتہار لگاتے ہیں وہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

جواب

بسم الله الرحمن الرحيم

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے اللہ سے دعا مانگنا تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ اگر وسیلے سے مراد یہ ہے کہ آپ تدبیر امور کے معاملے میں اللہ تعالی سے کوئی بات منوانے کی قدرت رکھتے ہیں یا ایسی کوئی دعا قبول کرنا خدا پر واجب ہے تو یہ درست نہیں۔ مخلوق میں سے کسی کو بھی اللہ نے تدبیر امور کے دائرے میں اپنا شریک نہیں بنایا۔ الا له الخلق والامر (الاعراف) یعنی کائنات کی تخلیق اور اس کے معاملات کو چلانے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے۔ اسی طرح مخلوق میں سے کسی کی سفارش کو قبول کرنا اللہ پر واجب نہیں۔ وہ اپنی حکمت کے مطابق کوئی بھی دعا یا سفارش قبول بھی کر سکتا ہے اور رد بھی۔

اور اگر دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا حوالہ دینے سے مقصود اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنا ہے تو یہ درست ہے۔ حدیث میں اللہ کی مخلوق یعنی چرند پرند کا حوالہ دے کر بارش کی دعا کی گئی ہے۔ اسی طرح اپنے کسی نیک عمل کا حوالہ دے کر اللہ سے دعا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ گویا اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کے لیے خود اس کی اپنی صفت رحم کا حوالہ دینا بھی درست ہے اور کسی ایسی بات کا بھی جس سے خدا کی رحمت جوش میں آتی ہو۔ اسی اصول پر اگر دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسری نیک ہستی کا حوالہ دیا جائے اور اس سے مقصود اللہ کی رحمت کو اپیل کرنا ہو تو اس میں شرعا‘ کوئی خرابی معلوم نہیں ہوتی۔

جہاں تک اللہ تعالی یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مشتمل کوئی فریم وغیرہ لٹکانے کا تعلق ہے تو اس میں بھی شریعت کے اعتبار سے کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ یا رسول اللہ کا کلمہ موہم اور محل اشکال ہے` کیونکہ عام طور پر یہ جملہ اس اعتقاد کے ساتھ بولا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علم کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہیں اور ہر بات دیکھ اور سن رہے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے` اس لیے اس جملے سے گریز کرنا چاہیے۔

واللہ اعلم 

مجیب: Ammar Khan Nasir

اشاعت اول: 2015-10-11

محمد عمار خان ناصر
WRITTEN BY

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر 10 دسمبر 1975ء کو گوجرانوالہ کے قصبہ گکھڑ منڈی میں ملک کے ایک معروف دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو دیوبندی مسلک کا علمی ترجمان سمجھا جاتا ہے جبکہ ان کے والد مولانا زاہد الراشدی جن کا اصل نام عبد المتین خان زاہد ہے ایک نہایت متوازن رویہ رکھنے والے مذہبی اسکالر اور دانش ور کے طور پر معروف ہیں۔

1989ء سے 2000ء تک الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے مجلہ ماہنامہ الشریعہ کے معاون مدیر رہے اور بعد میں اس کے باقاعدہ مدیر کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

عمار خان ناصر، 1990ء کے لگ بھگ جاوید احمد غامدی سے متعارف ہوئے اور غیر رسمی استفادے کا سلسلہ 2003ء تک جاری رہا۔ جنوری 2004ء میں المورد سے باقاعدہ وابستہ ہوئے اور 2010ء تک کے دورانیے میں "جہاد۔ ایک مطالعہ" اور "حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث" کے زیرعنوان دو تصانیف سپرد قلم کیں۔ ان دنوں المورد کے ریسرچ فیلو کے طور پر جاوید احمد غامدی کی کتاب میزان کا توضیحی مطالعہ ان کے زیرتصنیف ہے۔

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading