سوال
پچھلے دنوں مجھے کسی نے جاوید احمد صاحب غامدی کی یہ راے بتائی کہ اب اسلامی مہینوں کے تعین کے لیے چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ چاند کی مختلف اوقات میں مختلف حالتیں مشینوں کے ذریعے سے ہم پر عیاں ہیں۔ از راہِ کرم واضح فرما دیجیے کہ عید کم از کم ایک ملک میں اور زیادہ سے زیادہ عالم اسلام میں ایک دن میں کیسے کی جائے؟ نیز اختلاف مطالع کے باعث ہوائی سفر میں نماز اور روزہ کے اوقات کا حساب کیسے کیا جائے؟
جواب
قرآن مجید میں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہے کہ روزے اور حج کے مہینے قمری تقویم، یعنی چاند کی ماہانہ گردش سے طے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قمری مہینے کا تعین کیسے ہو۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام چاند دیکھ کر کیا جائے گا،لیکن انسان نے بہت پہلے یہ بات جان لی تھی کہ چاند کی گردش معین ہے اور ہلال کے طلوع کو حساب کتاب سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قمری مہینے کے ہونے اور نہ ہونے کا تعین دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ رؤیت ہلال سے بھی اور گردش قمر کے حساب سے بھی۔ اب یہ حساب کتاب اتنا یقینی ہو چکا ہے کہ اہل فن سیکنڈ کے حساب سے چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دین میں چاند کے تعین میں کسی خاص طریقے کو ترجیح دی گئی ہے؟ قرآن مجید میں اس حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مدار بحث ایک روایت ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
صوموا لرؤيته وافطروا لرؤيته فان غمي عليکم فأکملوا العدد. (مسلم، رقم 1081)
”چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگرمطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔”
اس روایت کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ رمضان اور عید کا تعین صرف چاند دیکھ کر کرنا چاہیے۔ دراں حالیکہ یہ بات اس جملے سے لازم نہیں آتی۔روزے کے حوالے سے سحر اور افطار کا تعین بھی طلوع فجر اور غروب آفتاب سے متعلق ہے، لیکن وہاں ہم نے کسی رؤیت صبح صادق اور تعین غروب آفتاب کا اہتمام نہیں کیا۔ سورج کی گردش کے متعین حساب کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں اور لوگ گھڑیاں دیکھ کر سحر اور افطار کرتے ہیں،حالاں کہ قرآن مجید نے یہاں بھی دو مظاہر فطرت کو آغاز صوم اور اختتام صوم کا نشان قرار دیا تھا۔ استاد محترم کے نزدیک جس طرح یہاں سورج کی گردش کے حساب پر اعتماد کیا گیا ہے، اسی طرح چاندکی گردش کے حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا اس صورت میں بھی بہ تمام وکمال پورا ہوتا ہے۔
قدیم علما بھی جب مطلع صاف نہ ہو اور رؤیت ممکن نہ رہے تو حساب کتاب ہی کو فیصلے کا مدار قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں دو آرا ہیں: ایک راے یہ ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور دوسری راے یہ ہے کہ گردش کا حساب دیکھ کر طے کیا جائے کہ آج طلوع ہلال ممکن تھا یا نہیں۔ جو راے قائم ہو، اس پر عمل ہونا چاہیے۔یہ دوسری راے امام شافعی سے بھی مروی ہے۔ اس راے میں بھی بنیادی اصول یہی کار فرما ہے کہ اصل مسئلہ آغاز رمضان یا اختتام رمضان کا تعین ہے۔ رؤیت ہلال اس کا ذریعہ ہے، اس کی شرط نہیں ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اختلاف مطالع کے باعث مختلف علاقوں میں عید اور رمضان کے اوقات بدل جاتے ہیں، اس کا کیا حل ہے؟ ہمارے نزدیک سارے عالم اسلام یا سارے ملک میں ایک ہی دن عید کرنے کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔ جن علاقوں کا مطلع مختلف ہے، ان میں عید کا دن مختلف ہی ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قمری گردش کو مذہبی تقویم قرار دیا ہے تو یہ فرق اسی کا نتیجہ ہے۔
ہوائی سفر میں نماز اور روزے کا حساب ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ جس علاقے سے سفر شروع کیا گیا ہے، وقت کا فرق کم ہو تو اس علاقے کے اوقات ملحوظ رکھنے چاہییں، لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو جس علاقے سے جہاز گزر رہا ہو یا پہنچنے والا ہو، اس کا اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافر کی صواب دید پر ہے، وہ جسے بھی اختیار کرے گا، امید یہی ہے کہ اس کے روزے اور نماز کے مقبول ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-05