سوال
میرا سوال قطع تعلق یا صلہ رحمی سے متعلق ہے۔ اگر خاندان میں کوئی زیادتی کرتا ہے یا کر رہا ہے اور کسی کے سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتا بلکہ حد سے گزر جاتا ہے تو کیا معاملہ کرنا چاہیے؟ترک تعلق کس حد تک یا کب جائز ہو جاتا ہے؟ اگر میری بہن یا بھائی کے ساتھ خاندان کا کوئی فرد ظلم وزیادتی کرتا ہے تو کیا مجھے اپنی بہن یا بھائی کی خاطر اس خاندان سے ترک تعلق نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی خوشی یا غم میں شرکت کرنا پھر بھی میرا فرض ہوگا۔
جواب
دین کا حکم یہ ہے کہ صلہ رحمی کرو۔ میری سمجھـ کے مطابق یہ حکم اس اصرار کے ساتھـ اور اس اہتمام کے ساتھـ اس لیے دیا گیا ہے کہ اس پر عمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بعض اوقات ناشکری اور حق تلفی کے رویے کے باعث اور بعض اوقات ظلم اور زیادتی کے سبب سے۔
آپ نے جو احوال لکھے ہیں کسی نہ کسی رنگ انداز اور سطح پر تقریبا تمام لوگ ہی اس تجربے سے گزرتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہمارا تعلق ہوتا ہے ان سے ہماری بہت سی اچھی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا رویہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ مزید برآں اگر ان سے کوئی زیادتی سامنے آرہی ہو تو ہماری تکلیف بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے رشتے داروں کے ساتھـ ہر حال میں حسن سلوک کرنا ہے۔ ان کی بے اعتنائی، نا شکری اور زیادتی کے باوجود۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تین درجے ہو سکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ آپ جس حد تک زیادتی ہوئی ہے اس کا بدلہ لے لیں اور تعلقات کو منقطع نہ کریں لیکن میل جول بھی نہ رکھیں۔ مطلب یہ کہ اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو بس سلام دعا کے بعد ایک دوسرے سے دور رہیں۔
دوسرا یہ کہ آپ اس طرح کے رشتے داروں کے ساتھ صرف غمی اور خوشی کا تعلق رکھیں اور عام حالات میں ان سے میل ملاقات نہ کریں۔ لیکن اگر کوئی شدید ضرورت سامنے آجائے تو آپ مدد کرنے سے گریز نہ کریں۔
تیسرا یہ کہ آپ زیادتیوں کو نظر انداز کریں اور حسن سلوک اور مہربانی کا برتاؤ بھی جاری رکھیں۔
پہلا درجہ اختیار کرنے پر آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔
دوسرا درجہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ نیکی کے مواقع ضائع نہیں ہوں گے۔
تیسرا درجہ فضیلت کا درجہ ہے۔ اللہ کی رضا زیادہ زیادہ حاصل کرنا پیش نظر ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-07-11