حج وعمرہ اور خواتین کے ایام

18

سوال

حج یا عمرہ کی عبادات میں کسی خاتون کو اگر احرام باندھنے سے پہلے یا اُس کے بعد ایام شروع ہوجائیں تو اُس صورت میں حج وعمرہ کے مناسک کی ادائیگی کے باب میں اُس کے لیے دین میں کیا حکم ہے؟

جواب

اِس طرح کی صورت حال کسی خاتون کو خواہ حج میں پیش آئے،خواہ عمرہ میں؛احرام باندھنے سے پہلے پیش آئے یا اُس کے بعد؛بہرحال وہ احرام کی تمام پابندیوں کا لحاظ رکھے گی،تلبیہ پکارے گی،دیگر حجاج ہی کی طرح تمام مناسک ادا کرے گی اور دعا ومناجات بھی کرے گی ۔ تاہم شریعت کی رو سے یہ واضح رہے کہ اِس حالت میں خواتین جس طرح نماز سے مستثنٰی ہوتی ہیں،اُسی طرح وہ نماز کی جگہوں یعنی مساجد میں بھی حاضر نہیں ہوسکتیں ۔ چنانچہ اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر حج وعمرہ کی عبادات میں خواتین اِس حالت میں اُن مناسک کو بھی ادا نہیں کرسکتیں جو مسجدِ حرام میں ادا کیے جاتے ہیں ۔ اور وہ دو ہی مناسک ہیں :

ایک بیت اللہ کا طواف

دوسرے صفا ومروہ کی سعی

اِن کے سوا باقی تمام مناسک وہ دیگر حجاج ومعتمرین ہی کی طرح ادا کریں گی ۔ طواف اور سعی کو اُنہیں بہرحال پاکیزگی کی حالت لوٹ آنے تک مؤخر کرنا ہوگا ۔

صفا ومروہ کی پہاڑیوں اور اُن کے احاطے کو جس زمانے تک مسجدِ حرام میں شامل نہیں گیا تھا،اُس وقت تک عورتوں کو ایام کی اِس حالت میں سعی کی اجازت بھی حاصل تھی؛جیساکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب سیدہ عایشہ رضی اللہ عنھا ایام سے تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا : تم اِس حالت میں سوائے طواف کے،حج کے تمام مناسک ادا کرسکتی ہو۔ (بخاری، رقم: 294۔ مسلم،رقم:1211)

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading