قطب اور ابدال وغیرہ کو ماننا

20

سوال

غامدی صاحب کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے پڑھا کہ قطب اور ابدال وغیرہ کو ماننا بھی شرک ہے۔ براہ مہربانی اس بات اور اس طرح کے درجات کی وضاحت فرمادیں۔ کیا وہ تدبیر امور کا دعوی کرتے ہیں۔ اگر وہ تدبیر امور نہیں کرتے بلکہ محض اللہ پروردگار عالم کے احکامات نافذ کرتے (قائم الزمان، شاہ ولی اللہ وغیرہ) تو اس بنا کر ان کو ماننا کیسے شرک ہو سکتا ہے۔ فرشتوں کے امور اور ذوالقرنین کے حوالے سے وضاحت فرمادیں۔ شرک کے حوالے سے بھی کوئی کتاب دیں جہاں سب مذاہب کے شرکیہ عقائد کا محکم قرآنی دلائل سے رد کیا گیا ہو اور توحید کا اثبات۔ اسی طرح نجوم کے اثرات کیسے شرک ہوئے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ مختلف تاریخ پیدایش والے لوگوں پر وہ مختلف اثر ڈالتے ہوں اور انسان اپنے شعور کے تحت ان سے بچتا بھی ہو اور لوگوں نے سٹڈی کرکے وہ اثرات مرتب کر لیے ہوں۔

جواب

اللہ تعالی کے نظام تکوین میں کچھ ہستیاں شریک ہیں۔ یہ تصور بالعموم دو صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی نے کچھ ہستیوں کو خود سے کچھ کاموں میں خود سے شریک کر رکھا ہے یا وہ شریک ہی کی حیثیت سے ہمیشہ سے موجود ہیں۔ یہ شرک کی وہ صورت ہے جو تمام مشرکانہ مذاہب میں بیان کے فرق کے ساتھ موجود ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کچھ ہستیاں عبادت و ریاضت سے اپنے آپ کو مقبول بارگاہ بنا لیتی ہیں اور اس طرح اللہ تعالی ان کو کچھ امور کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ دونوں طرح کے شرک زیر بحث آئے ہیں اور ان پر ایک ہی تنقید کی ہے کہ ان کے پاس کوئی سلطان (authority) نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات وحی کے سوا کسی طریقے سے معلوم نہیں ہو سکتی کہ اللہ نے کچھ شرکا بنا رکھے ہیں یا امور تکوینی تک رسائی کا کوئی قاعدہ بنا رکھا ہے۔ چونکہ خدا کی کسی کتاب میں نہ صرف یہ کہ اس طرح کی کسی بات کی طرف اشارہ بھی موجود نہیں ہے بلکہ صریح الفاظ میں ان کی تردید ہوئی ہے اس لیے ان کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ بھی اس تصور پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان تک پیغام رسانی ہوتی ہے۔ یہ بات دو پہلوؤں سے ناقابل قبول ہے۔ ایک یہ کہ کچھ ریاضتوں سے انسان مخاطبہ الہی کا اہل ہو جاتا ہے۔ یہ بات اوپر والی بات ہی کی طرح بے بنیاد ہے۔ دوسرا یہ کہ ختم نبوت کا تصور اس کے نتیبجے میں باطل ہو جاتا ہے اور نبوت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی انسان کو مخاطبہ الہی کا مقام حاصل ہو جائے۔ قطب و ابدال جیسے تصورات درحقیقت اسی بنیاد پر باطل ہیں اور ان کے ماننے سے خدائی میں شرکت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور ان تصورات کو ماننے والوں کے ہاں اس کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔

اس حوالے سے آپ نے کتاب بھی پوچھی ہے مولانا امین احس اصلاحی رحمہ اللہ کی کتاب حقیقت شرک اور حقیقت توحید آپ حاصل کرکے پڑھ لیجیے۔ امید ہے آپ کو بہت ساری باتیں واضح ہو جائیں گی۔

آپ نے ستاروں کے اثرات کے ماننے کے شرک ہونے پر بھی تعجب ظاہر کیا ہے۔ قرآن مجید نے جبت کو جرم قرار دیا ہے۔ جبت کا مطلب یہ ہے کہ اوقات اور اشیا کے ماورائی اثرات مانے جائیں۔ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور اس تصور کی بھی الہامی لٹریچر سے کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ یہ بھی انسانوں ہی کے بنائے ہوئے تصورات ہیں اور انسان کو سعی وجہد کرنے والا اور خدا پر بھروسا کرنے والا بنانے کے بجائے توہم پرست بناتے ہیں۔ قرآن مجید نے جبت کو گناہ قرار دیا ہے اور ستاروں کے اثرات ماننا جبت ہی کے تحت آتا ہے۔

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-07-13

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading