فتویٰ پر پابندی

16

سوال

ایک عالمِ دین کے فتویٰ دینے پر تنقید کیوں کی جاتی ہے، حالانکہ فتوے کا لفظ رائے کے مفہوم میں بھی بولا جاتا ہے؟

جواب

فتوی کے دو پہلو ہیں: ایک چیز تو یہ ہے کہ آپ دین کی کوئی بات پوچھتے ہیں: مثلاً آپ یہ پوچھتے ہیں کہ دین میں طلاق دینے کا کیا طریقہ ہے یا آپ یہ پوچھتے ہیں کہ شرک کیا ہوتا ہے۔ تو یہ بات عالمِ دین ہی بتائے گا۔ آپ اسی سے پوچھیں گے، حتیٰ کہ ریاست کو بھی اگر یہ مسئلہ درپیش ہو تو وہ عالمِ دین ہی سے پوچھے گی اور ایک عالمِ دین ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دین کے کسی معاملے میں اپنی رائے دے۔ اس کے اس حق پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔

ایک چیز یہ کہ آپ محض رائے نہیں پوچھ رہے، بلکہ کسی دوسرے آدمی پر اس رائے کا اطلاق کر رہے ہیں۔ یعنی آپ یہ بات پوچھتے ہیں کہ اس مردو عورت میں طلاق ہو گئی یا نہیں؟ یا آپ یہ بات پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص مشرک ہو گیا یا نہیں؟ تو اس معاملے میں کسی عالم کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنا نقطہء نظر بیان کرے۔ یعنی قانون نافذ کرنے کا کام علما نہیں کریں گے۔ ایسے معاملات کو بہرحال عدالت کے پاس جانا ہے اور عدالت ہی کو ایسے معاملات کا فیصلہ کرنا ہے۔ البتہ نکاح و طلاق کے معاملے میں اگر عالمِ دین کو باقاعدہ ثالث بنایا جائے تو وہ طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ دے سکتا ہے۔

مجیب: Javed Ahmad Ghamidi

اشاعت اول: 2015-06-21

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading