سوال
میں موسیقی سے متعلق ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں غامدی صاحب کا نقطہ نظر صحیح ہے۔ لوگ عموماً اپنے کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ غامدی صاحب پہلے سکالر ہیں جو موسیقی کے بارے میں ایسی مثبت رائے رکھتے ہیں۔ تا ہم میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ بہت سے مشہور علماء، جیسا کہ امام نووی، امام غزالی، اور کچھ دوسرے، موسیقی کے بارے میں ایسی ہی آراء رکھتے تھے۔ برائے مہربانی آپ زمانہ حال اور ماضی کے علماء کے موسیقی سے متعلق نقطہ ہائے نظر پر تفصیل سے روشنی ڈالیں تا کہ میں لوگوں کو یہ بتا سکوں کہ غامدی صاحب پہلے عالم نہیں جنہوں نے موسیقی کی اجازت دی ہے۔
جواب
میرے لیے کسی مراجعت اور تحقیق کے بغیر فوری طور پر یہ بتانا مشکل ہے کہ ماضی یا حال کے کون کون سے اہل علم موسیقی کے حوالے سے متعین طو رپر وہی رائے رکھتے ہیں جو غامدی صاحب نے بیان کی ہے، البتہ غامدی صاحب کے نقطہ نظر اور عام علما کے نقطہ نظر کے فرق کو سمجھ لینا چاہیے۔ جہاں تک کسی اچھی اور دل کش آواز کے اصولی طور پر مباح اور جائز ہونے کا تعلق ہے، چاہے وہ کسی انسان کے گلے سے نکلی ہو یا کسی ساز باجے سے، تو میرے فہم کی حد تک اس نکتے میں کوئی خاص اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس پر کم وبیش اتفاق ہے کہ اچھی آواز فی نفسہ ممنوع یا مذموم نہیں اور یہ کہ اس میں قباحت یا حرمت کا پہلو دراصل کسی زائد وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر موسیقی کے ساتھ کوئی فحش یا سفلی جذبات کو انگیخت کرنے والا کلام پڑھا جائے یا اسی مقصد کے تحت رقص وغیرہ کو ساتھ شامل کر لیا جائے تو ایسی موسیقی کی حرمت میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اصل اختلاف اس میں ہے کہ وہ زائد وجہ کون کون سی ہو سکتی ہے جس کے پیش نظر موسیقی کو حرام کہا جا سکتا ہے۔ جمہور علما کے نزدیک ایک بڑی اور بنیادی وجہ موسیقی کا ‘لہو’ ہونا ہے، یعنی یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان پر ایک خاص کیفیاتی لذت طاری کر کے اسے اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہے۔ اب چونکہ یہ صورت کم وبیش ہر موسیقی میں پائی جاتی ہے، اس لیے جمہور علما دف کے علاوہ، جس کی اجازت حدیث میں منصوص طور پر بیان ہوئی ہے، باقی کسی بھی آلہ موسیقی کے استعمال کو ناجائز کہتے ہیں۔ اس کے برعکس غامدی صاحب اور بعض دوسرے اہل علم فی نفسہ کسی چیز کے ‘لہو’ ہونے کو حرمت کی کافی دلیل نہیں سمجھتے، کیونکہ دل کو بہلانے والے بہت سے امور کی اجازت شریعت میں ثابت ہے، بشرطیکہ وہ دل کو بہلانے تک محدود رہیں اور انسان اس سے آگے بڑھ کر ان میں اس طرح کھو نہ جائے کہ دین ودنیا کے فرائض اور ذمہ داریوں سے ہی غافل ہو جائے۔ مزید برآں ‘دف’ کی اجازت حدیث سے ثابت ہونے کے بعد دوسرے آلات موسیقی کو فی نفسہ مباح تسلیم نہ کرنے کی بھی کوئی معقول وجہ دکھائی نہیں دیتی، اس لیے کہ ایک دلکش اور سرور بخش آواز پید اکرنے میں تمام آلات موسیقی شریک ہیں، چنانچہ اگر باقی آلات موسیقی کو بھی ‘دف’ پر قیاس کرتے ہوئے فی نفسہ مباح کہا جائے تو بظاہر اس میں کوئی مانع دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح جمہور علما اور غامدی صاحب کے مابین اس ضمن میں بھی اختلاف ہے کہ آیا ایک بالغ عورت کی آواز کا غیر محرم مرد کے کان میں پڑنا فی نفسہ ممنوع ہے یا نہیں۔ جمہور علما اسے صرف ضرورت کی حد تک جائز سمجھتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ اور خاص طور پر گانے وغیرہ کی صورت میں موجب فتنہ ہونے کی وجہ سے اسے جائز نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس غامدی صاحب کے نزدیک غیر محرم کے لیے عورت کی آواز کا سننا فی نفسہ ممنوع نہیں ہے۔ بعض روایات وآثار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا غیر محرم عورتوں کی آواز میں غنا سننا مروی ہے۔ عام اہل علم کے نقطہ نظر کی رو سے اس اجازت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ آپ عام لوگوں کے بالمقابل فتنے سے خاص طور پر مامون ومحفوظ تھے یا پھر اسے لونڈیوں سے متعلق قرار دیا جا سکتا ہے جن کے لیے آزاد عورتوں کے مقابلے میں حجاب وغیرہ کے احکام نسبتاً نرم رکھے گئے تھے، تاہم غامدی صاحب اس اباحت کو اصولی طو رپر سب کے لیے عام سمجھتے ہیں۔
اس موضوع پر غامدی صاحب کی کوئی باقاعدہ اور مفصل تحریر میری نظر میں نہیں ہے اور مذکورہ توضیح بعض یادداشتوں اور استنباط پر مبنی ہے، اس لیے اس میں ان کے یا جمہور علما کے نقطہ نظر کی ترجمانی میں کسی خامی یا غلط فہمی کا پایا جانا بعید از امکان نہیں۔ بہتر ہوگا کہ اس موضوع پر دیگر تفصیلی تحریروں کا مطالعہ کر لیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
مجیب: Ammar Khan Nasir
اشاعت اول: 2015-10-10