قیامِ منی کے ایّام میں نمازوں کو قصر کرنا

11

سوال

حدیث وسنت کی رو سے منٰی میں حجاج کو نمازیں پوری پڑھنی چاہییں یا قصر کر کے پڑھنا درست ہوگا؟

جواب

اِس حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ اکثر حجاج تردد کا شکار رہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک اِس مسئلے میں صحیح رائے یہ ہے کہ ایّامِ منٰی میں مقامی اور آفاقی،تمام حجاج نمازوں کو قصر کر کے پڑھیں ۔ دورانِ حج اِن مقامات پر پوری نمازیں پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے خلاف ہے ۔ ابلیس کے خلاف جنگ کی تمثیل کے تقاضے سے اِن ایّام میں نمازوں کو قصر کرکے پڑھنا ہی آپ کا اُسوہ ہے ۔ اور عبادات کے باب میں آپ ہی کا اُسوہ قابل اتباع ہے ۔

روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اِن ایّام میں آپ نے نمازیں قصر کر کے پڑھی ہیں ۔ (بخاری،رقم:1656,1655) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اُس حج میں اہل مکہ کے مسلماں بھی اِن نمازوں میں آپ کے ساتھ شریک تھے اور اُنہوں نے بھی آپ کے پیچھے نمازوں کو قصر کیا ۔ آپ نے اُنہیں پوری نماز پڑھنے کی تاکید نہیں کی ؛جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں اُن کو کی تھی ۔(المعجم الکبیر،طبرانی،رقم:517)

اِس تفصیل سے واضح ہوا کہ ایام منٰی میں نمازوں کو قصر کر کے پڑھنے کا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ یہ مناسکِ حج کے ساتھ خاص ہے ۔ منٰی کی قدیم ترین مسجد،مسجدِ خَیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اُسوہ کے مطابق آج بھی تمام نمازیں قصر ہی پڑھائی جاتی ہیں ۔

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-17

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading