سوال
میرا سوال یہ ہے کہ کیا حج بدل ہو سکتا ہے؟ سورہ نجم میں آیا ہے کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے سعی کی۔ اگر کیا جا سکتا ہے تو پھر کون سے اعمال ہیں جو دوسرے کی طرف سے کیے جا سکتے ہیں؟ برائی مہربانی وضاحت فرمائیں۔
جواب
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ آپ نے پوچھا ہے کہ کیا حج بدل ہو سکتا ہے۔ سورہ نجم میں آیا ہے کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے سعی کی۔ اگر کیا جا سکتا ہے تو پھر کون سے اعمال ہیں جو دوسرے کی طرف سے کیے جا سکتے ہیں۔
پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ حج بدل کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہی سوال کیا گیا تھا تو آپ نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔
دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ سورہ نجم کی آیت میں جو اصول اجر بیان کیا گیا ہے وہ اٹل حقیقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی کو اس کے کیے ہی کا اجر ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اعمال جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا اس میں بدل کا کوئی قائل نہیں ہے۔ جیسے نماززکوۃ اس پر فرض ہے جس کے پاس نصاب کے مطابق مال ہے۔ ہمارے گھروں میں بیویوں کے پاس زیورات ہوتے ہیں اور ان کی بڑی تعداد کی اپنی کوئی آمدنی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان پر عائد ہونے والی زکوۃ ان کے شوہر ادا کرتے ہیں۔ جس اصول پر یہ زکوۃ ادا ہو جاتی ہے اسی اصول پر حج بدل بھی ہو سکتا ہے۔ حج کا ایک حصہ مال ہے اور دوسرا سعی و جہد ہے۔ ایک شخص صاحب مال ہے اور سعی و جہد کی سکت نہیں رکھتا اور اس کا حج کرنے کا پختہ ارادہ ہے اس شخص کا اپنے مال سے کسی دوسرے کو اپنی جگہ بھیجنا کیوں رائگاں جاۓ گا۔
تیسری بات کا جواب یہ ہے کہ ارکان دین پانچ ہیں۔ اعلان ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت میں کسی کی شرکت کا کوئی سوال نہیں ہے۔ نماز میں ہر معذوری پر رعایت دے کر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ فرد کو خود ہی ادا کرنی ہے۔ روزہ میں قرآن نے تفصیلی احکام دے کر یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ بھی ہر مسلمان کو خود ہی رکھنا ہے۔ مستقل معذور کے لیے بھی فقہا نے فدیے کا طریقہ بیان کیا ہے جو بجائے خود قرآن سے ماخوذ ہے۔ زکوۃ ادا کرنے میں دو جگہ شرکت ہو سکتی ہے ایک یہ کہ زکوۃ ادا کرنے میں مطلوب رقم فراہم کرنے میں کوئی مدد کردے۔ دوسرے یہ کہ کسی تک زکوۃ کی رقم پہنچانے میں کوئی ہاتھ بٹا دے۔ حج میں معذور ہونے کی صورت میں اپنی آمدنی سے کسی کو اپنی جگہ پر بھیج دے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-15