پردے کے احکام

8

سوال

عورت کے لیے پردے کا اصل حکم کیا ہے؟ کیا
سر ڈھانپنا ضروری ہے؟ جسم کس حد تک ملبوس ہونا چاہیے؟ کیا ایک بڑی چادر یا
برقع لینا ضروری ہے؟

جواب

پردے کا لفظ قرآن مجید کے احکام کو پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں مرد و عورت ، دونوں کو گھر ہو یا کوئی دوسری جگہ جب یہ ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو کچھ آداب واحکام کا پابند کیا ہے۔

دو حکموں میں مردوعورت مشترک ہیں اور دو حکم عورت کے لیے اضافی ہیں:

دونوں اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔

دونوں شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔

عورتیں اپنی زیب وزینت اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔

عورتیں اپنے سینے کو ڈھانپ کر رکھیں۔

نظریں بچانے سے مراد یہ ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے کے حسن وجمال سے آنکھیں سینکنے، خط وخال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔

شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ مرد وعورت ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام سے چھپائیں۔ اس میں ظاہر ہے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ لباس باقرینہ ہو۔ عورتیں اور مرد، دونوں ایسا لباس پہنیں جو زینت کے ساتھ ساتھ صنفی اعضا کو بھی پوری طرح چھپانے والا ہو۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے۔

لباس کے حوالے سے عورتوں کو مزید ہدایت سینے سے متعلق ہے کہ وہ اسے اپنے دوپٹوں سے ڈھانپ کر رکھیں۔

اس ہدایت پر عمل کرنے میں تشدد اور نرمی دونوں طرح کے رویے پیدا ہوئے ہیں۔ جو خواتین زیادہ سے زیادہ ڈھانپنے کی طرف مائل ہیں، وہ بھی اور جو احکام کے تقاضے پورا کر دیتی ہیں ، دونوں ہمیشہ سے معاشرے میں موجود رہی ہیں۔ اس کا انحصار ذوق اور حالات پر ہوتا ہے کہ کوئی عورت کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ہم کسی رویے کو اس وقت ہی غلط قرار دے سکتے ہیں،جب وہ حکم کے الفاظ ہی سے متجاوز ہو۔

سورۂ احزاب میں بڑی چادر لینے کا حکم فتنہ پردازوں سے بچنے کے لیے ایک تدبیر تھا۔ یہ کوئی مستقل حکم نہیں تھا ، لیکن ہمارے فقہا نے اسے ایک ابدی حکم سمجھا ہے۔ لہٰذا وہ اسے اب بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل اور ابدی حکم سورۂ نور کا ہے اور باحیا اور باوقار لباس جو عورت کی زیب و زینت اور جسم کو نمایاں کرنے والا نہ ہو ، حکم کا تقاضا پورا کر دیتا ہے۔سر ڈھانپنے کے حوالے سے کوئی حکم قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بھی نہیں ہے جس میں آپ نے سر ڈھانپنے کی ہدایت کی ہو۔ یہ بات معلوم ہے کہ عرب میں سر ڈھانپنے کا رواج تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں اور اصحاب کی ازواج نے اس کو جاری رکھا۔ اس اعتبار سے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید حاصل ہے اور قرآن مجید کے احکام بھی اس طرزمعاشرت کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں۔ ایک روایت سے یہ تائید مزید محکم ہوتی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:

”بالغ عورتیں اگر اوڑھنی لیے بغیر نماز پڑھیں تو اللہ اسے قبول نہیں کرتے۔”

معلوم ہے کہ نماز میں قاعدے کا لباس پہننا چاہیے۔ عورت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے قاعدے کے لباس میں اوڑھنی شامل ہے۔

طالب محسن

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-08-03

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading