سوال
غامدی صاحب فرماتے ہيں كہ دين كی كامل وضاحت صرف رسول صلی الله عليہ و سلم اور ان كے صحابہ كرام ہی كر سكتے ہيں۔ ان كے بعد كوئی يہ كام نہيں كر سكتا۔ نتيجة كوئی مسلمان كسی كو بھی كافر قرار نہيں دے سكتا۔ ميرا سوال يہ ہے كہ اگر صحابہ كا مقام يہی ہےتو جو لوگ ان كو گالياں ديتے اور برا بھلا كہتے ہيں ان كے بارے ميں آپ كی كيا رائے ہے؟
جواب
تکفیر ایک قانونی عمل ہے۔ یہ ایک فقہی بحث ہے اور اس کا اطلاق دنیا میں ہونا ہے اس کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا میں تکفیر کرنے کے لیے حق کس کو حاصل ہے اور کس کو نہیں ہے اور اس کا طریق کار اور شرائط کیا ہیں یا ہونی چاہئیں۔ ان سوالات کا تعلق کسی فرد یا گروہ کو مسلم امت سے علیحدہ کرنے سے ہے۔ اس میں فقہاء کی آراء ہیں اور غامدی صاحب نے بھی اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
لیکن غامدی صاحب کی بات سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہم امت کے افراد اور گروہوں کے غلط کو غلط نہیں کہیں گے۔ امت میں بدعات ہیں، عقیدے کی خرابیاں ہیں، عملی انحرافات ہیں، خاموش دہریہ پن ہے ان میں سے ہر چیز شدید تنقید کی مستحق ہے اور اصلاح احوال کے لیے محنت اور کوشش کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ غلط کو غلط کہیں گے شرک کو شرک کہیں گے۔ بدعت کو بدعت کہیں گے۔ انحراف کو انحراف کہیں گے۔ان کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کی غلطی سے بھی آگاہ کریں گے۔ تکفیر اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ تکفیر ایک قانونی اقدام ہے اوراس کا جواز اور عدم جواز ایک اہم بحث ہے خاص طور پر ہمارے اس زمانے میں جب مسلمان کی عزت، ایمان، جان اور مال کو دین کے نام پر مباح قرار دینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا۔ قرآن مجید میں یہود کی یہ روش زیر بحث آئی ہے کہ وہ کس طرح باہم جنگیں کراتے اور پھر دین کے نام پر مدد کا غلغلہ برپا کرتے۔ مذہبی گروہوں میں تشدد اور شدت دین کی اشاعت اور لوگوں کے دین پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔ ہمیں مصلح بنایا گیا ہے ہمیں یہی کردار ادا کرنا چاہیے۔ جو خدا کی نظر میں کافر ہے وہ ہمارے مسلمان سمجھنے سے آخرت میں بچ نہیں پائے گا۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-28