توہین رسالت کے مرتکب ذمیوں کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نقطہ نظر

46

سوال

توہینِ رسالت اور شتمِ رسول کے باب میں یہ بتائیں کہ مسلمان
ریاست میں اِس کا مرتکب اگر کوئی غیر مسلم شہری ہو تو اُس صورت میں اِمام
أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اُس کے لیے کیا سزا ہے؟

جواب

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس حوالے سے علم اسلامی کے متعدد مراجع میں إمام أبو حنیفہ،إمام ثوری اور علماے کوفہ میں سے اِن دونوں کے شاگردوں کی یہ رائے نقل ہوئی ہے کہ کوئی غیر مسلم شہری اگر شتمِ رسول اور توہینِ رسالت کا علانیہ ارتکاب کرتا ہے تو ریاست اُس کی تادیب کرے گی اور تعزیراً اُسے کوئی سزا دے گی۔ کوئی حکمران اگر سیاسی طور پر اُس کے لیے سزائے موت کا فیصلہ کرے تو وہ الگ بات ہے،لیکن اِس جرم کی حَدِّ شرعی کے طور پر بہرحال اُسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اپنے اِس موقف کے حق میں اِن ائمہ کا کہنا ہے کہ اہل ذِمَّہ کے اِن غیر مسلموں کے علم وعمل میں جس طرح کا کفر وشرک پہلے سے پایا جاتا ہے؛جرم کے اعتبار سے وہ بجائے خود گستاخی رسول سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ چنانچہ اِن بڑے جرائم کی موجودگی میں اپنے عقدِ ذمہ کی امان کا پاس رکھتے ہوئے ہم اگر اُنہیں قتل نہیں کرسکتے تو شتمِ رسول کی بنا پر اُنہیں کس طرح قتل کیا جاسکتا ہے ؟

یہاں قارئین پر یہ بات بالخصوص واضح رہنی چاہیے کہ راقم الحروف کی تحقیق واستقصا کے مطابق مذکورہ بالہ تینوں سوالوں کے جواب میں إمام أبو حنیفہ،اُن کے شاگردوں اور فقہاے حنفیہ کی نسبت سے جو کچھ بیان ہوا ہے،علم کی دنیا میں وہی اُن کے واحد اور معتمد اقوال ہیں،جن کے سوا مرجوح اور غیر مشہور روایت کی حیثیت سے بھی فقہ حنفی میں کوئی دوسری راے کسی ماخذ میں نقل نہیں ہوئی ہے۔

غیر مسلم شہریوں کے بارے میں إمام أبو حنیفہ،إمام ثوری اور اُن کے شاگردوں سے منسوب رائے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ سلف وخلف کے متعدد علما وفقہا نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :

علامہ أبو سلیمان الخطابی رحمہ اللہ نے چوتھی صدی ھجری میں اپنی کتابمعالم السنن (شرح سنن أبی داود)”(296/3) میں؛قاضی عیاض رحمہ اللہ نے چھٹی صدی ھجری میں اپنی کتابالشفا بتعريف حقوق المصطفٰی(1031، 1030/2) میں؛إمام قرطبی رحمہ اللہ نےساتویں صدی ھجری میں اپنی تفسیر “الجامع لاحکام القرآن”(83/8) میں؛ساتویں صدی ھجری ہی میں إمام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتابالمجموع شرح المهذب(427/19) میں؛إمام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ نے آٹھویں صدی ھجری میں اپنی کتابالصارم المسلول علی شاتم الرسول(16/1) میں إمام أبو حنیفہ،إمام ثوری اور اُن کے شاگردوں کا یہی نقطۂ نظر نقل کیا ہے۔

گیارھویں صدی ھجری میں علماے حنفیہ میں سے مُلا علی قاری نے اپنی کتابمرقاةالمفاتيح شرح مشکاة المصابيح(107/7) میں بھی یہی موقف نقل کیا ہے۔ تیرھویں صدی ھجری میں فقہاے حنفیہ میں سے علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے اپنی کتابرد المحتار علی الدر المختار”(399،398/4)اور “تنبيه الولاة والحکام علی أحكام شاتم خير الأنام میں إمام أبو حنیفہ،اُن کے شاگردوں اور ائمہ حنفیہ کا یہ موقف نہ صرف یہ کہ خود بیان کیا ہے،بلکہ اِس کی روایت میں إمام ابن تیمیہ کی بھی توثیق کی ہے۔

تیرھویں صدی ھجری ہی میں إمام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب نيل الأوطار شرح منتقی الأخبار(381، 380/7) میں اور چودھویں صدی ھجری میں أبو الطیب عظیم آبادی نے اپنی کتاب عون المعبود شرح سنن أبی داود (12/12)میں علماے کوفہ کا یہی موقف نقل کیا ہے۔

قارئین کے اِفادے کے لیے محوَّلہ بالہ تمام مصادر کے اصل متون بھی اِسی تاریخی ترتیب کے ساتھ مع تراجم پیش خدمت ہیں :

1۔ إمام خطابی (متوفی:388 ھ) اپنی کتابمعالم السنن (شرح سنن أبی داود)”میں فرماتے ہیں :

وحكي عن أبي حنيفة أنه قال : لا يقتل الذمي بشتم النبي صلى الله عليه وسلم ما هم عليه من الشرك أعظم(1) .

” إمام أبوحنیفہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا : غیر مسلم شہری کو شتمِ رسول کے جرم میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ (کیونکہ) جس شرک پر وہ پہلے سے قائم ہے،وہ بذات خود اِس سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے”۔

2۔ علامہ قاضی عیاض مالکی (متوفی:544 ھ) اپنی کتابالشفا بتعريف حقوق المصطفٰیمیں لکھتے ہیں:

فأما الذمي إذا صرح بسبه أو عرض أو استخف بقدره أو وصفه بغير الوجه الذى كفر به فلا خلاف عندنا في قتله إن لم يسلم ، لأنا لم نعطه الذمة أو العهد على هذا ، وهو قول عامة العلماء إلا أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا : لا يقتل ، لأن ما هو عليه من الشرك أعظم ولكن يؤدب ويعزر(2).

” کوئی غیر مسلم شہری اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر علانیہ سب و شتم کرتا،اُن کی شان میں گستاخی کرتا،اُن کی تحقیر کرتا اور کسی ایسے (نازیبا) وصف سے اُن کو موصوف کرتا ہے کہ جو اُس کے کفر کا سبب نہیں ہے تو اُس صورت میں اگر وہ اسلام قبول نہیں کرلیتا تو ایسے شخص کے قتل کیے جانے کے باب میں ہمارے ہاں (مالکیہ میں) کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ اِس طرح کے جرم کے ارتکاب پر ہم نے اُسے کوئی عہد وامان نہیں دے رکھا ہے۔ عام طور پر اہل علم کی یہی رائے ہے،تاہم إمام أبو حنیفہ،إمام ثوری اور اہل کوفہ میں سے اُن کے شاگردوں کا قول یہ ہے کہ ایسے ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ وہ جس شرک پر پہلے سے قائم ہے ، وہ اِس سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے (لیکن اِس کے باوجود ہم اُسے قتل نہیں کرتے)۔ تاہم اُس کی تادیب ضرور کی جائے گی اور (قتل کے سوا) تعزیراً اُسے کوئی سزا دی جائے گی”۔

3۔إمام قرطبی (متوفی:671 ھ) اپنی تفسیر”الجامع لأحکام القرآنمیں سورۂ توبہ کی آیت نمبر۸کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أكثر العلماء على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم من أهل الذمة أو عرّض أو استخف بقدره أو وصفه بغير الوجه الذي كفر به فإنه يقتل؛ فإنّا لم نعطه الذمة أو العهد على هذا. إلا أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا : لا يقتل ، ما هو عليه من الشرك أعظم ، ولكن يؤدب ويعزر(3) .

”اکثر علما کی رائے یہ ہے کہ ذمیوں میں سے جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر علانیہ سب وشتم کیا،اُن کی شان میں گستاخی کی،اُن کی تحقیر کی اور کسی ایسے (نازیبا) وصف سے اُن کو موصوف کیا جو اُس کے کفر کا سبب نہیں ہے تو اُس صورت میں اُسے قتل کردیا جائے گا۔ کیونکہ اِس طرح کے جرم کے ارتکاب پر ہم نے اُسے کوئی عہد وامان نہیں دے رکھا ہے۔ تاہم إمام أبو حنیفہ،إمام ثوری اور اہل کوفہ میں سے اُن کے شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ ایسے ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ وہ جس شرک پر پہلے سے قائم ہے وہ اِس سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے (اِس کے باوجود ہم اُسے قتل نہیں کرتے)۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اُس کی تادیب کی جائے گی اور (قتل کے سوا) تعزیراً اُسے کوئی سزا دی جائے گی”۔

4۔ إمام نووی (متوفی:676 ھ) اپنی کتابالمجموع شرح المهذبمیں فرماتے ہیں :

واحتج الطحاوي لأصحابه بحديث أنس الذى فيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقتل من كانوا يقولون له السَّام عليك ، وأيده بأن هذا الكلام لو صدر من مسلم لكانت ردة ، وأما صدوره من اليهودي فالذي هم عليه من الكفر أشد ، فلذلك لم يقتلهم النبي صلى الله عليه وسلم (4).

”اور إمام طحاوی نے اپنے علما کی رائے کے حق میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی اُس حدیث سے استدلال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (السَّلام علیک کے بجائے بد دعا دینے کی غرض سے) السَّام علیک کہنے والوں کو قتل نہیں فرمایا۔ اپنی رائے کی تائید میں إمام طحاوی نے مزید فرمایا کہ اِس طرح کی بات اگر کوئی مسلمان کرے تو یہ ”ارتداد” ہے۔ جہاں تک یہود سے اِس کے صادر ہونے کا تعلق ہے تو یہ جاننا چاہیے کہ وہ جس کفر پر قائم ہیں وہ اِس سے کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔ چنانچہ اِسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں قتل نہیں فرمایا”۔

5۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ (متوفی:726 ھ) شتمِ رسول کے موضوع پر اپنی شہرۂ آفاق کتابالصارم المسلول علی شاتم الرسولمیں ائمۂ حنفیہ کا نقطۂ نظر اِن الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :

وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا : لا ينتقض العهد بالسب ، ولا يقتل الذمي بذلك ، لكن يعزر على إظهار ذلك كما يعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلها من إظهار أصواتهم بكتابهم ونحو ذلك ، وحكاه الطحاوي عن الثوري اهـ (5)؃.

”جہاں تک إمام أبو حنیفہ اور اُن کے ساتھیوں کے موقف کا تعلق ہے تو اُن کا کہنا ہے کہ شتمِ رسول کی بنا پر غیر مسلم شہری کا (مسلمان ریاست سے کیا ہوا ) عہد و پیمان نہیں ٹوٹتا۔ چنانچہ اِس جرم کی بنا پر اُسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اِس جرم کے علانیہ ارتکاب پر اُسے کوئی سزا دی جائے گی،جیسا کہ اُن منکرات کے علانیہ ارتکاب پر اُسے سزا دی جاتی ہے جن کی (مسلمان ریاست میں) انہیں اجازت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اُن کا بآوازِ بلند اپنی کتاب کی تلاوت کرنا وغیرہ۔ إمام طحاوی نے یہی موقف إمام ثوری کی نسبت سے بھی حکایت کیا ہے”۔

6۔ مُلا علی قاری حنفی (متوفی:1014 ھ) اپنی کتابمرقاةالمفاتيح شرح مشکاةالمفاتيحمیں فرماتے ہیں :

قال المظهر : وفيه أن الذمي إذا لم يكف لسانه عن الله ورسوله ودينه فهو حربي مُباح الدَّم قال بعض علمائنا ، وبه أخذ الشافعي ، وعند أصحاب أبي حنيفة لا ينقض عهده به (6).

”مَظہر (صاحب المفاتیح فی حل المصابیح) فرماتے ہیں کہ اِس روایت میں اِس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ کوئی ذمّی اگر اللہ،اُس کے رسول اور دین پر سب و شتم سے اپنی زبان کو نہیں روکتا تو وہ حَربی اور مُباح الدم ہے۔ ہمارے بعض اصحاب علم نے یہی رائے پیش کی ہے۔ اور اِسی موقف کو إمام شافعی نے اختیار کیا ہے۔ إمام أبو حنیفہ کے ساتھیوں کی رائے یہ ہے کہ ذمی کے اِس جرم سے (مسلمان ریاست سے کیا ہوا) اُس کا عہد وپیمان نہیں ٹوٹتا (چنانچہ اُسے قتل نہیں کیا جائے گا) ”۔

7۔ متاخرینِ فقہاے حنفیہ میں سے علامہ امین بن عابدین دمشقی (متوفی:1252 ھ)؛مذہبِ حنفی میں جن کے مقام ومرتبہ سے ہر شخص واقف ہے؛بالخصوص شتم رسول کے موضوع پر وہ اپنی کتابتنبيه الولاة والحکام علی أحکام شاتم خيرالأناممیں علماے حنفیہ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

إن السابَّ إذا كان كافرًا لا يُقتل عندنا ، إلا إذا رآه الإمام سياسةً ، ولو كان السبُّ هو العلّة لَقُتِل حدًّا لا سياسةً (7).

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب وشتم کرنے والا اگر کوئی غیر مسلم ہے تو ہمارے نزدیک اُسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ الاّ یہ کہ حکمران سیاسی طور پر اُس کے لیے سزائے موت کا فیصلہ کرے۔ اِس معاملے میں سزاے موت کی علّت اگر شتمِ رسول ہوتی تو ایسے مجرم کو ضرور شرعی سزا کے طور پر قتل کیا جاتا،نہ کہ سیاسۃً ”۔

اِسی طرح علامہ ابن عابدین حنفی اپنی مشہور کتابرد المحتار علی الدر المختار جو حاشيةابن عابدينکے نام سے بھی معروف ہے؛اُس میں فرماتے ہیں :

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب میں میں نے دیکھا ہے کہ اُنہوں نے اِس معاملے میں علماے حنفیہ کا فقہی مذہب اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:

وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا : لا ينتقض العهد بالسب ، ولا يقتل الذمي بذلك ، لكن يعزر على إظهار ذلك كما يعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلها من إظهار أصواتهم بكتابهم ونحو ذلك ، وحكاه الطحاوي عن الثوري . ومن أصولهم: يعني الحنفية أن ما لا قتل فيه عندهم مثل القتل بالمثقل والجماع في غير القبل إذا تكرر ، فللإمام أن يقتل فاعله ، وكذلك له أن يزيد على الحد المقدر إذا رأى المصلحة في ذلك ، ويحملون ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه من القتل في مثل هذه الجرائم ، على أنه رأى المصلحة في ذلك ، ويسمونه القتل سياسة .

وكان حاصله : أن له أن يعزر بالقتل في الجرائم التي تعظمت بالتكرار ، وشرع القتل في جنسها، ولهذا أفتى أكثرهم بقتل من أكثر من سب النبي صلى الله عليه وسلم من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه، وقالوا: يقتل سياسة ، وهذا متوجه على أصولهم اهـ.

فقد أفاد أنه يجوز عندنا قتله إذا تكرر منه ذلك وأظهره، وقوله : وإن أسلم بعد أخذه ، لم أر من صرح به عندنا، لكنه نقله عن مذهبنا وهو ثبت فيقبل(8).

” اور جہاں تک أبو حنیفہ اور اُن کے شاگردوں کا تعلق ہے تو وہ کہتے ہیں کہ شتمِ رسول کی بنا پرغیر مسلم شہری کا (مسلمان ریاست سے کیا ہوا) عہد و پیمان نہیں ٹوٹتا۔ چنانچہ اِس جرم کی بنا پر اُسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اِس جرم کے علانیہ ارتکاب پر اُسے کوئی سزا دی جائے گی،جیساکہ اُن منکرات کے علانیہ ارتکاب پر اُسے سزا دی جاتی ہے جن کی (مسلمان ریاست میں) اُنہیں اجازت نہیں ہے۔ مثال کے طور پراُن کا بآوازِ بلند اپنی کتاب کی تلاوت کرنا وغیرہ۔ إمام طحاوی نے یہی موقف إمام ثوری کی نسبت سے بھی حکایت کیا ہے۔ اور یہ بات بھی حنفیہ کے اُصول میں سے ہے کہ جن جرائم پر اُن کے نزدیک قتل کی سزا نہیں ہے،اُن میں بھی بعض جرائم اِس نوعیت کے ہوا کرتے ہیں کہ اُن کا اگر بار بار ارتکاب کیا جائے تو حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ ایسے مجرم کو قتل کردے۔ اِسی طرح وہ مصلحت دیکھ کر کسی معاملے میں مقرر سزا میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔ توہینِ رسالت جیسے جرائم کے باب میں سزاے موت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی للہ عنہم سے روایتوں میں جو کچھ نقل ہوا ہے؛علماے حنفیہ اُسے حکمران کی مصلحت ہی پر محمول کرتے اور اِسے”سیاسی قتل”کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

ائمہ حنفیہ کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جرائم جن کے بتکرار ارتکاب سے اُن کی سنگینی اور بڑھ جائے اور جن میں قتل مشروع ہو،اُن میں حکمران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ (اگر مصلحت دیکھےتو) مجرم کی تعزیر کو قتل تک بڑھادے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اِن میں سے اکثر علما نے اُس ذمی کے بارے میں جو توہینِ رسالت کا بتکرار ارتکاب کرتا ہے؛اگرچہ گرفت میں آجانے کے بعد اسلام ہی کیوں نہ لے آئے؛اُس کے قتل کا فتویٰ دیا اور کہا ہے کہ ایسے مجرم کو سیاسۃً قتل کیا جائے گا (نہ کہ توہینِ رسالت کی حدّ شرعی کے طور پر)۔ یہ تمام تفصیل حنفیہ کے اُصول پر مبنی ہے۔

ابن تیمیہ کے کلام پر علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں کہ حنفیہ کے موقف کی ترجمانی میں یہاں ابن تیمیہ نے یہ واضح کیا ہے کہ ذمی سے شتمِ رسول کا صدور علانیہ اور بتکرار ہو تو (تعزیراً اور سیاسۃً) اُس کا قتل بھی جائز ہے۔ اِس پر مزید جو بات ابن تیمیہ نے یہ بیان کی ہے کہ گرفت میں آجانے کے بعد اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوجائے؛تب بھی یہی حکم ہوگا۔ اِس بات کی تصریح ہمارے فقہا میں سے کسی کے ہاں مجھے نہیں مل سکی۔ لیکن ابن تیمیہ نے چونکہ اِسے ہمارے مذہب کے طور پر نقل کیا ہے اور اُن کی شخصیت بہت ہی قابل اعتماد ہے،چنانچہ اُن کی یہ بات قبول کی جائے گی ”۔

8۔ إمام شوکانی (متوفی:1255 ھ) اپنی کتاب نيل الأوطار شرح منتقی الأخبارمیں لکھتے ہیں :

وعن الكوفيين إن كان ذميا عزر وإن كان مسلما فهي ردة.واحتج الطحاوي لأصحابه بحديث أنس المذكور في الباب وأيده بأن هذا الكلام لو صدر من مسلم لكانت ردة ، وأما صدوره من اليهود فالذي هم عليه من الكفر أشد ، فلذلك لم يقتلهم النبي صلى الله عليه وآله وسلم(9) .

”اور اہل کوفہ (یعنی علماے حنفیہ) کا یہ موقف روایت ہوا ہے کہ شاتمِ رسول اگر ذمی ہو تو اُسے تعزیراً کوئی سزا دی جائے گی۔ اور اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا یہ عمل ارتداد ہے۔ اورطحاوی نے اپنے علما کی رائے کے حق میں باب میں مذکور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اور اپنی رائے کی مزید تائید إمام طحاوی نے اِس طرح فرمائی ہے کہ ایسی بات (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو السّلام علیک کہنے کے بجائے بد دعا کی غرض سے السّام علیک کہنا) اگر کوئی مسلمان کرتا ہے تو یہ ارتداد ہے۔ اور جہاں تک یہود سے اِس کے صادر ہونے کا تعلق ہے تو یہ جاننا چاہیے کہ وہ جس کفر پر قائم ہیں؛جرم کے اعتبار سے وہ اِس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ چنانچہ اِسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں قتل نہیں فرمایا”۔

9۔ أبو الطیب شمس الحق عظیم آبادی (متوفی:1329 ھ) أبو داود کی شرحعون المعبودمیں فرماتے ہیں :

وعن الكوفيين إن كان ذميًّاعُزِّر وإن كان مسلما فهي رِدَّة (10) .


(1) 296/3۔ طبعة وتصحيح الشيخ محمد راغب الطباخ فی مطبعتة العلمية۔ حلب،سوريا طبعه اُولٰی۔1351ھ۔

(2) 1031،1030/2. الشفا بتعريف حقوق المصطفٰی بتحقيق الشيخ علی محمد البجاوی،القاضی عياض،1024/2. دار الکتاب العربی،بيروت۔1404ھ۔

(3)83/8۔ دار الکتب المصرية۔ القاهرة۔ طبعه ثانيه:1384ھ۔

(4) 427/19۔ دار الفکر،بيروت۔ مصدر الکتاب : موقع يعسوب

(5) 16/1۔ باب حکاية مذهب أبی حنيفة۔ دار ابن حزم،بيروت۔ طبعه اُولٰی:1417ھ۔

(6) 107/7۔ دار الکتب العلمية،بيروت۔ لبنان۔ طبعه اُولٰی:1422ھ۔

(7) مجموعة رسائل ابن عابدين:کتاب تنبيه الولاة والحکام علی أحکام شاتم خير الأنام،320/1. مطبعة در سعادت الا ستانة،الترکية طُبع علی ذمة محمد هاشم الکبتی1325ھ۔

(8)399،398/4۔ دار الفکر للطباعة والنشر والتوزيع۔ بيروت،لبنان۔1415ھ۔

(9) 381،380/7۔ دار الجيل۔ بيروت۔1973 م۔

(10) 12/12۔دار الکتب العلمية۔بيروت۔طبعه ثانيه:1415ھ۔

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-17

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading