تحويل قبلہ

26

سوال

قرآن میں کس جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں، اگر نہیں دیا گیا تو آپ نے ایسا کیوں کیا؟

جواب

یہ بات تو قرآن مجید سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز نہیں پڑھی۔

ارشاد باری ہے:

١- سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوْا عَلَيْهَا

”(ابراہیم کی بنائی ہوئی مسجد کو ، اے پیغمبر ،ہم نے تمھارے لیے قبلہ ٹھہرانے کا فیصلہ کیا ہے تو) اب اِن لوگوں میں سے جو احمق ہیں ، وہ کہیں گے : اِنھیں کس چیز نے اُس قبلے سے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے؟ ”

٢۔.وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ(البقره٢: ١٤٣)

”اور اِس سے پہلے جس قبلے پر تم تھے ، اُسے تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے ٹھہرایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔”

٣۔ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.(البقره٢

: ١٤٤)

”(اے پیغمبر) ، سو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ تمھیں اُس قبلے کی طرف پھیر دیں جو تم کو پسند ہے، لہٰذا اب اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔”

آیات نمبر١ اور ٢ اور ان کے ترجمے میں موجود خط کشیدہ الفاظ میں بیت اللہ کا ذکر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس قبلے کا ذکر ہے؟
آیت نمبر ٣ میں بیت اللہ کی طرف آپ کا رخ پھیر دینے کا ذکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے رخ کو کدھر سے اِدھر پھیرا جا رہا ہے۔
قرآن کی یہ آیت کہ ‘سَيَقُوْلُ السُّفَهَآءُ’ (عنقریب یہ بے وقوف(یہود) کہیں گے)، بتاتی ہے کہ یہ یہود کا پسندیدہ قبلہ ہے۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ یہ بیت المقدس ہی ہے۔

اور احادیث بھی بتاتی ہیں کہ وہ بیت المقدس ہی ہے۔

قرآن مجید کے اس مقام کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، البتہ آپ اس بات کا اہتمام ضرور کرتے تھے کہ آپ اس رخ پر کھڑے ہوں جس پر خانہ کعبہ اور بیت المقدس، دو نوں ہی قبلے آپ کے سامنے آ جائیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک اہل کتاب سے مختلف کوئی طریقہ اختیار نہ کیا کرتے تھے، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس کا حکم یا اس کی اجازت نہ مل جاتی تھی۔

پھر جب آپ مدینہ میں آئے تو وہاں دونوں قبلوں کو بہ یک وقت سامنے رکھنا ممکن نہ تھا، لہٰذا آپ نے اپنے اصول کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دی، لیکن آپ کا جی یہ چاہتا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں۔ پھر جیسا کہ درج بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے، کچھ ہی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دے دیا کہ آپ کعبہ ہی کواپنا قبلہ بنائیں۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-06-30

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading