ترجمہ قرآن

11

سوال

میں نے بعض لوگوں سے یہ سنا ہے کہ قرآن کا پہلا ترجمہ فارسی میں ہوا تھا اور پھر اسی فارسی ترجمے سے باقی تمام ترجموں میں رہنمائی لی گئی، جس کی وجہ سے ایرانیوں کے خیالات اور ان کے عقائد قرآن کے اُن ترجموں میں شامل ہو گئے ہیں، چنانچہ یہ ترجمے قابل اعتبار نہیں ہیں، خصوصاًجبکہ ہم لوگ عربی زبان سے بھی ناواقف ہیں۔ کیا یہ بات آپ کے خیال میں درست ہے؟

جواب

ترجموں کے حوالے سے آپ نے جو بات لکھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عالم نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، وہ تو کچھ عربی جانتا تھا، چنانچہ اس نے عربی قرآن کا فارسی میں ترجمہ کر لیا، لیکن جن لوگوں نے قرآن کا ترجمہ مثلاً اردو میں کیا ہے، وہ عربی کوئی خاص نہیں جانتے تھے، البتہ وہ فارسی بہت اچھی جانتے تھے ،چنانچہ وہ فارسی ترجمے ہی کی مدد سے اردو میں قرآن کا ترجمہ کرنے پر مجبور تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کے اردو ترجمے کو دیکھیے، وہ ایک بے مثال ترجمہ ہے۔ کوئی شخص بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ مسلمان امت میں قرآن کا ترجمہ عربی زبان سے ناواقف لوگوں نے کیا ہے اور جو عربی زبان جانتے تھے، انھوں نے ایسے ترجمے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے دیے اور خود اس ضمن میں کوئی کام نہ کیا۔

اس طرح کے اشکالات عموماً ان لوگوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں جو عربی زبان سے ناواقف تھے۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-07

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading