سوال
کسی نجومی سے مشورہ کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ اسی طرح کی پیشین گوئی ہے ،جس طرح طوفان ، زلزلے اور بارش وغیرہ کی پیشین گوئی کی جاتی ہے۔میرا ایک ذاتی تجربہ ہے۔ مجھے کسی نجومی نے بتایا تھا کہ فلاں وقت ملک سے باہر جانے کا امکان ہے، ایسا ہی ہوا۔ مجھے فائدہ یہ ہوا کہ میں نے اس کے لیے مناسب تیاری کر رکھی تھی۔ اگر نجومیوں سے اس نوع کا فائدہ اٹھایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟
جواب
اس طرح کے تمام علوم مشرکانہ معاشروں کی باقیات میں سے ہیں۔ قرآن مجید میں ایمان بالجبت سے منع کیا گیا ہے اور اس علم کے ڈانڈے اس چیز سے بھی ملتے ہیں۔ صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے کہ آپ عقل اور تجربے کی روشنی میں تدبیر کریں اور پھر اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس تدبیر کی کامیابی کی دعا کریں۔اس طرح کے فنون کے ماہرین اصلاً شیاطین کے آلۂ کار ہوتے ہیں، خواہ انھیں یہ بات معلوم ہو یا نہ ہو۔ اس طرح کی چیزوں کی طرف رغبت ایمان کے نقصان پر منتج ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ایسی چیزوں سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔
میں نے اس فن کو جبت سے متعلق قرار دیا ہے اور جبت پر ایمان کی مذمت سورۂ نساء (4)کی آیت 51 میں کی گئی ہے، اس آیت کے تحت جبت کے معنی بیان کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:
” ‘جبت’ سے مراد اعمال سفلیہ، مثلاً سحر، شعبدہ، ٹونے ٹوٹکے، رمل جفر، فال گیری، نجوم، آگ پر چلنا اور اس قسم کی دوسری خرافات ہیں۔ ہاتھ کی لکیروں کا علم بھی اسی میں شامل ہے۔” (تدبر قرآن 2/ 312)
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-06