رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت

15

سوال

کیا نماز میں رفع یدین کرنا ضروری ہے؟ اور اگر ضروری نہیں تو کیا رفع یدین نہ کرنا حدیث سے ثابت ہے؟

جواب

نماز کا ماخذ حدیث نہیں، بلکہ سنت ہے، کیونکہ امت نے نماز کو سنت سے اخذ کیا ہے نہ کہ حدیث سے۔ نماز ایک دینی عمل کے طور پر سنت سے حتمی طور پرثابت ہے۔
یہاں پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ سنت سے ہماری کیا مراد ہے اور حدیث سے کیا مراد ہے؟ استاذ محترم غامدی صاحب سنت اور حدیث کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔” (میزان14)” سنت …کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اِس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے ،یہ اِسی طرح اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرارپائی ہے، لہٰذا اِس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔
دین لاریب ،اِنھی (قرآن اور سنت) دو صورتوں میں ہے ۔اِن کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اُسے دین قرار دیا جاسکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارآحادجنھیں بالعموم ”حدیث” کہا جاتا ہے ، اِن کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اِن سے جو علم حاصل ہوتا ہے ، وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا ، اِس لیے دین میں اِن سے کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں اِن میں آتی ہیں ،وہ درحقیقت، قرآن و سنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم و تبیین اور اِس پرعمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کابیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اِس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اُسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
اِس دائرے کے اندر ، البتہ اِس کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے ۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا ، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ۔”(میزان14۔15)

نماز کا ماخذ سنت ہے نہ کہ حدیث۔ سنت سے جو نماز اس امت کو ملی ہے اس میں وہ (رکوع سے پہلے اور بعد کا) رفع یدین موجو د نہیں، جس کے بارے میں ہمارے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ وہ احادیث جو نماز کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بیان کرتی ہیں، ان میں آپ کے اس رفع یدین کو اختیار کرنے کا ذکر موجود ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رفع یدین اصل نماز کا حصہ نہیں ہے، البتہ اسے اختیار کیا جا سکتا ہے اور رفع یدین کرنا اجر کا باعث ہو گا، لیکن نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر رفع یدین نماز کا لازمی حصہ ہوتا، جیسا کہ رکوع و سجدہ نماز کا لازمی حصہ ہے تو یہ چیز بھی ہمیں امت کے عملی تواتر سے اسی طرح ملتی، جیسا کہ رکوع و سجدہ ملے ہیں۔ چنانچہ پھر اس صورت میں اس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا، لیکن اس کی خبر چونکہ ہمیں حدیث سے ملی ہے اور جو چیز احادیث سے ملتی ہے، اس میں اختلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے، جیسا کہ ہم اس معاملے میں بھی دیکھ رہے ہیں۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-08

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading