سوال
میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو نقصان پہنچانا یا فراڈ کرنا پیش نظر نہ ہو اور کسی مصلحت کے تحت جھوٹ بولا جائے تو کیا یہ جائز ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔
جواب
امید ہے آپ بخیر ہوں گے ۔ آپ نے پوچھا ہے کہ اگر کسی کو نقصان پہنچانا یا فراڈ کرنا پیش نظر نہ ہو اور کسی مصلحت کے تحت جھوٹ بولا جائے تو کیا یہ جائز ہے ۔جھوٹ بولنا گناہ ہے ۔ یہ ہرگز کار خیر نہیں ہے ۔ صرف ایک صورت ہے جس میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اور وہ یہ کہ کسی کی جان بچانا مقصود ہو ۔ آپ نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس کا حل توریہ ہے ۔ توریہ کی سب سے اچھی مثال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سفر ہجرت میں حضور کے بارے میں جواب ہے ۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کہ آپ راستہ بتانے والے ہیں ۔ یہ جملہ دشمن کے لیے اور معنی رکھتا تھا اور حضرت ابوبکر کے لیے اور مطلب ۔ یعنی ایسا جملہ بنانا جس میں بولنے والا ایسے الفاظ میں اپنی بات بیان کرے جو خلاف حقیقت نہ ہوں لیکن سننے والے کو اصل بات بھی معلوم نہ ہو ۔ بعض موقعوں پر زیادہ مناسب یہ ہوتا ہے کہ آپ صاف کہہ دیں کہ میں بات نہیں بتا سکتا ۔ اگر یہ بات اعتماد سے کی جائے اور اس کو نبھایا جائے تو لوگ آہستہ آہستہ اس بات کو سراہنے لگ جاتے ہیں ۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ خاموش رہیں اور ایسا کوئی اظہار آپ کی طرف سے نہ ہو کہ آپ کو اصل بات معلوم ہے ۔ آپ یہ بھی کر سکتے ہیں صرف بات کا وہ حصہ چھپا لیں جو نقصان دہ ہے اور باقی بات بیان کر دیں ۔ اسی طرح ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ موضوع کو سلیقے سے بدل دیں اور اپنے آپ کو غلط بیانی سے بچالیں ۔ غرض یہ کہ اگر جھوٹ سے بچنا مطمح نظر ہو تو کئی راستے نکالے جا سکتے ہیں ۔ اگر آدمی کہیں پھنس جائے اور خلاف واقعہ بات اس کے منہ سے نکل جائے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف اصلاح احوال ہو اور اس صورت حال سے نکلتے ہی بندہ سچے دل سے اللہ سے معافی مانگ لے تو اللہ کی طرف سے رحمت اور بخشش ہی کی امید ہے ۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-14