سوال
سورہ احزاب کا ایک خاص موضوع ہے۔ جس میں زیادہ تر احکام اس زمانے کے لیے خاص ہیں۔ اسی سورت میں صلاۃ و سلام کی آیت بھی ہے۔ اگر اس کے سیاق وسباق پرغور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کا حکم اسی زمانے کے لیے خاص تھا، جب مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرف سکنڈلائز کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ان حالات میں یہ حکم دے کر منافقین کو یہ بتانا تھا کہ رسول پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور مسلمان بھی دعا گو رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
1 ۔ یہ حکم اسی دور کے لیے خاص تھا۔
2 ۔ اس آیت میں ہمارے لیے عمومی سبق ہے کہ رسول کے لیے دعا کرتے رہنی چاہیے مگر یہ کوئی باقاعدہ حکم نہیں ہے جیسے کہ سمجھا جاتا ہے۔
3 ۔ رسول سے جب صلاۃ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیسے کیا جائے تو رسول کی تین دفعہ پوچھنے پر بھی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر یہ کوئی باقاعدہ حکم ہوتا تو حضور یہ اسلوب اختیار نہ فرماتے۔
جواب
قرآن مجید کی تمام آیات سیاق وسباق اور حالات کے ساتھ متعلق ہیں۔ لیکن ان کا آگے قائم رہنا اس صورت میں ہوتا ہے کہ وہ احکام بطور دین دیے گئے ہیں اور ان کا صورت و معنی میں تسلسل اہل ایمان میں مطلوب ہے۔ صرف وہی احکام اس زمانے تک محدود رہے جو وقتی تدبیر کی حیثیت رکھتے تھے یا حضور کی ذات کے ساتھ اس اعتبار سے متعلق ہیں جو صرف آپ کی زندگی ہی میں ہو سکتے تھے۔ درود کا معاملہ کسی طور اس نوع سے تعلق نہیں رکھتا۔ حضور سے محبت کا تعلق تا قیامت اہل ایمان سے مطلوب ہے اور درود اسی تعلق کا ایک مظہر ہے۔
درود حضور سے محبت کا ایک لیکن لازمی تقاضا ہے۔ لہذا درود کا حکم وقتی نہیں ہو سکتا۔
باقی آپ نے جو روایت لکھی ہے وہ مجھے ملی نہیں۔ لیکن اگر یہ روایت ہے تو اس کا سیاق و سباق کوئی اور ہو گا۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-13