سوال
پچھلے سال میری والدہ کی وفات ہوگئی۔ بیماری سے پہلے میری والدہ کا معمول تھا کہ وہ کئی تسبیحات کرتی رہتی تھی۔ وہ تقریبا ایک سال بیمار رہیں اور فالج کی وجہ سے بالکل بول نہیں سکتی تھیں۔ وہ نہ ہی پڑھ اور لکھ سکتیں تھی اور اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔ کیا میں اس نیت سے وہ تسبیحات جاری رکھ سکتا ہوں اس نیت سے کہ ان کا نیکی کا عمل جاری رہے اور اس کا اجرانھیں ملے۔ اگرچہ اس کے لیے ان کی کوئی وصیت نہیں ہے۔ اسی طرح میں فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور تین مرتبہ قل ھواللہ پڑھتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میری والدہ کو میری اس دعائے مغفرت سے فائدہ ہوگا۔ کیا میرا ایسا کرنا بدعت تو نہیں ہے؟
جواب
ہمارے پاس مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے ان کے ساتھ رحم اور مغفرت کا معاملہ کرنے کی دعا کرتے رہیں۔ سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھنا یہ حضور یا قرآن کا سکھایا ہوا طریقہ نہیں ہے۔ اور یہ اس نقطہ نظر سے کیا جاتا ہے ہے کہ تین بار سورہ اخلاص پڑھنے پر پورے قرآن کے پڑھنے کا ثواب ملنے کا خیال ہمارے ہاں رائج ہے اور ایصال ثواب کے نقطہ نظر سے ایسا کیا جاتا ہے۔ میری رائے میں ایصال ثواب کا یہ تصور درست نہیں ہے۔ لہذا آپ بے شک ہر نماز کے بعد اپنی والدہ کے لیے دعا کریں لیکن وہ دعا اس کے بغیر کریں۔
ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو کچھ آپ کی تربیت کرتے ہوئے آپ کو سکھاتی رہیں آپ وہ پورا کریں اور دوسروں کے لیے اگر انھوں نے کوئی کار خیر کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا اسے بھی جاری رکھیں اور اگر ان کے کسی نیک ارادے کا آپ کو علم ہو اور وہ نہ کر سکی ہوں تو اس کو بھی انجام دیں۔ یہ سارے کام آپ کے لیے بھی اور ان کے لیے بھی آخرت سنوارنے میں مددگار ہوں گے۔
ان کی تسبیحات کو جاری رکھنا ایک اچھا کام ہے لیکن یہ آپ کی نیکی ہے ان کی نیکی وہ اس صورت میں ہی ہے کہ انھوں نے آپ کو اس کی تلقین کی ہو۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-11