تصوف کی اہمیت کی وجہ

73

سوال

یہ حقیقت ہے کہ قرآن و حدیث میں تصوف کی کوئی بنیاد نہیں ہے، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بر صغیر کے اکثر علما نے اس کے باوجود اسے کیوں اختیار کیا؟

جواب

اس میں کوئی شک نہیں کہ تصوف میں موجود نظریات کی بنیاد قرآن مجید میں نہیں ہے، مثلاً وحدة الوجود ہی کے نظریے کو دیکھ لیں، اس کے مطابق خدا کے وجود کے ساتھ کسی دوسرے وجود کو ماننا ہی شرک ہے۔ تصوف میں انسان کی ساری جد و جہد اس لیے ہوتی ہے کہ وہ صفات خداوندی کا مظہر بنے،یعنی وہ ایسا وجود بنے جس سے خدا کی صفات کا ظہور ہو۔

ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان علما نے اسے اسلام کے مقابل میں رکھ کر ایک دوسرے دین کی حیثیت سے قبول کیا ہے، بلکہ انھوں نے دین کی ایسی تعبیر اختیار کر لی جس کے نتیجے میں وہ اسلام کی شاہ راہ سے ہٹ کر تصوف کی وادی میں گھس گئے۔ اس راہ بدلنے کی وضاحت یہ ہے کہ انھوں نے عبد و معبود کے اس تعلق عبادت کو (جس کا عملی اظہار شریعت نے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی صورت میں متعین کر دیاتھا) خدا کے ساتھ بندے کے عشق سے تعبیر کیا اور پھر تقاضاے عشق کی تکمیل کے لیے اسلام کی بیان کردہ شریعت سے آگے بڑھتے ہوئے مختلف شریعت وضع کر لی، جسے وہ طریقت اور حقیقت کہتے ہیں اور فنا فی الشیخ کی ابتدائی منزل سے فنا فی اللہ اور بقا باللہ کی انتہائی منازل کی طرف جانے والے راستے کو اپنی ‘صراط مستقیم’ قرار دے لیا۔ چنانچہ بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔

ہمارے خیال میں ان کے اس بہکنے کے پیچھے خدا کے ساتھ انتہائی محبت ہی کا جذبہ کارفرما رہا ہے، جیسا کہ عیسائیوں کے ہاں رہبانیت اختیار کرنے کے پیچھے خدا کی رضا کے حصول کا جذبہ کارفرما رہا ہے۔

مسلمان علما کے پاس اس سے بچنے کا راستہ یہی تھا کہ وہ اپنی ذہانت و فطانت کو وحی کے قدموں میں ڈال دیتے اور اپنے جذبوں پر خدا کے حکم کو غالب رکھتے ہوئے تمسک بالقرآن اختیار کرتے۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-08

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading