آزمایش کی حکمت

12

سوال

قرآن کریم اور احادیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پر آزمایش آنا دو علتوں پر مبنی ہے: ایک، جب بندۂ مومن جادۂ حق سے انحراف کر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو تنبیہ کی خاطر آزمایش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ دوسری جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی بندۂ مومن کا درجہ اونچا کرے تو اس کو آزمایش میں ڈالتا ہے، جیسے انبیا علیہم السلام کا حال ہے۔ براہ کرم اس موضوع پر قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں خالصاً علمی بحث کریں۔

جواب

آزمایش کے دو پہلو ہیں۔ ایک آزمایش یہ کہ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں اس کی حقیقت اچھی طرح متعین ہو جائے۔ دوسرا یہ کہ دین پر عمل کرتے ہوئے تزکیہ نفس کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہے وہ بھی تکمیل کو پہنچے۔ ہمارے اخلاق اور دین وایمان پر استقامت ہر لمحے معرض امتحان میں رہتے ہیں۔جب جب آزمایش آتی ہے اور یہ صبر اور شکر دونوں پہلوؤں سے ہوتی ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا زینہ بنتی چلی جاتی ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات درست ہے کہ مومن کے لیے بلند درجے کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ بعض تکلیفیں غفلت سے بیداری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا اظہار بھی ہیں کہ انھوں نے گرتے ہوئے شخص کو سنبھلنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ لیکن آزمایش کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں ایک دو امور کی طرف اشارہ حضرت موسی علیہ السلام کے سفر کے واقعات میں بھی ہوا ہے۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے ہے۔ اس میں امتحان اور اس کے لوازم کی حیثیت سے ترغیب وترہیب کے مراحل بھی پیش آتے ہیں۔ لیکن ہر واقعے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہمارے ادراک کے لیے ممکن نہیں ہے ۔حضرت موسی علیہ السلام کے اس سفر سے ایک یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-09-30

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading