سوال
ہمارے معاشرے میں تعویذ کا رواج عام ہو چکا ہے۔ کیا یہ کوئی دینی نوعیت کی چیز ہے یا کسی چیز کا علامتی اظہار ہے؟ کیا اس کے پہننے سے بیماریاں دور ہو سکتیں اور بگڑے ہوئے کام درست ہو سکتے ہیں؟
جواب
تعویذ اس دعوے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیات وکلمات میں تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کوئی دینی دلیل موجود نہیں ہے، یعنی قرآن و حدیث میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آیات وکلمات میں کوئی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں ،وہ اپنے مختلف تجربات بیان کرتے ہیں، لیکن ان تجربات کا کوئی غیر جانب دارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں یہ طے ہو سکے کہ اس دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس فن کے لوگ موجود رہے ہیں ، لیکن نہ قدیم نہ جدید کسی معاشرے نے اس فن کو ایک قابل اعتماد تدبیر قرار نہیں دیا۔
مزید دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں دو ہی طریقے سکھائے ہیں:
ایک یہ کہ عملی تدبیر کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے اس تدبیر کے کامیاب ہونے کی دعا کی جائے۔ کبھی کسی تعویذ یا وظیفے وغیرہ کا طریقہ نہ سکھایا گیا ہے اور نہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کا معاشرہ ہمیں اس طرح کی چیزوں سے خالی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے اپنے جسم پر پھونکا جا سکتا ہے ، لیکن اس سے تعویذ کا تصور نہیں نکالا جا سکتا ، اس لیے کہ تعویذ کلمات کی تاثیر کے تصور پر مبنی ہے ، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-30