اسلام میں عورت اور مرد کا فرق

18

سوال

اسلام مساوات کا مذہب ہے۔ پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ عورت کو مرد سے آدھی وراثت ملتی ہے اور شوہر کو بیوی کو مارنے کا حق دیا گیا ہے۔ کئی غیر مسلم قرآن کے اس حکم کا حوالہ دیتے ہیں۔ازراہ کرم ان تصورات کی وضاحت کردیجیے ۔

جواب

اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھیں تو مساوات کے بجاے عدل کا لفظ زیادہ صحیح ہے۔ مساوات سے بھی وہی مساوات مراد ہے جو عدل کے مقصد سے مطابقت رکھتی ہے۔ آپ نے قرآن مجید کی جن دوتعلیمات پر اشکال ظاہر کیا ہے، ان کا تعلق اسلام کے پیش نظر خاندانی نظام سے ہے۔
جس طرح کسی بھی نظام میں مناصب اہلیت کی بنا پر دیے جاتے ہیں،اسی طرح خاندان میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کی شخصیت میں کچھ فرق رکھا ہے ۔ دوسرے اسلام میں کفالت کا ذمہ دار مرد کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ان دو سبب کے تحت مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح ہر نظام میں سربراہ کو تادیب کے اختیار حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح گھر کے اس سربراہ کو تادیب کا اختیار حاصل ہے۔قرآن مجید میں یہ ساری بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ. (نساء4: 34)
”مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔”

شوہر کو بیوی کا باس(Boss) قرار دینے کی وجہ بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اچھی بیوی کی دو صفات بیان کی ہیں: ایک یہ کہ وہ فرماں بردار ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ گھر کے بھیدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے بعد اگر بیوی شوہر کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردے تو قرآن مجید نے اصلاح کے لیے نصیحت، بستر سے علیحدگی اور بدرجہ آخر مارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اگر اللہ کے دین میں دیا گیا خاندانی نظام پیش نظر ہو تو اس میں یہ ساری باتیں معقول ہیں۔ البتہ اگر خاندانی نظام کے بجاے معاشرے کو کسی دوسرے طریقے پر استوار کرنا پیش نظر ہے تو پھر نہ ان ہدایات کی ضرورت ہے اور نہ کسی خصوصی اختیار اور حیثیت کی۔

قانون وراثت کے ضمن میں عرض ہے کہ اس کی اساس خود اللہ تعالیٰ نے بیان کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وراثت کے یہ احکام اس لیے دیے گئے ہیں کہ تم خود سے بالعموم ٹھیک ٹھیک متعین نہیں کر سکتے کہ مرنے والے سے منفعت میں سب سے زیادہ کون قریب ہے، اس لیے ہم نے خود سے حصے مقرر کر دیے ہیں۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ مرد کو کفیل ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ اولاد کے مردوں پر آیندہ کفالت کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذاانھیں زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ اسی قانون میںماں باپ کا حصہ برابر ہے، حالاںکہ ان میں بھی ایک مرد اور ایک عورت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس پر معاش کی ذمہ داری کی وہ صورت نہیں ہے۔

ہر قانون اور ضابطہ کچھ مصالح اور مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ قانون پر تنقید کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس مصلحت اور مقصد کو سمجھا جائے۔ دو صورتیں ہوں گی: ہمیں اس مقصد اور مصلحت ہی سے اتفاق نہ ہو ، پھر بحث اس موضوع پر ہو گی۔ دوسری یہ کہ اس مصلحت اور مقصد کو یہ قانون پورا نہ کرتا ہو۔ اس صورت میں گفتگو اس دوسرے پہلو سے ہو گی۔ قرآن مجید کا معاملہ یہ ہے کہ یہ علیم و خبیر خدا وند عالم کی کتاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی کوئی بات انسانی فطرت اورعقل و فہم کے موافق نہ ہو۔ ہم اپنی کوتاہی دور کر لیں، ہر چیز واضح ہو جاتی ہے۔

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-08-03

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading