قتل مرتد اور دور رسالت

21

سوال

دور رسالت ميں قتل مرتد کے دعوي کي دليل قرآن و حديث ميں کہاں ہے؟

جواب

پہلے ميں اس مسئلے ميں جو پيچيدگي ہے اسے بيان کيے ديتا ہوں ، پھر اس کے بعد ميں اس کا وہ حل آپ کے سامنے رکھ دوں گا جو استاذ محترم غامدي صاحب نے پيش کيا ہے۔ ارشاد باري ہے:

لا اکراہ في الدين۔ “

 دين کو اختيار کرنے ميں کوئي جبر نہيں ہے”۔ (البقرۃ2: 256)

يہ آيت ہميں بتاتي ہے کہ دين کو اپنانے ميں کوئي جبر نہيں ہے۔ جس کا جي چاہتا ہے وہ مسلمان ہو اور جس کا جي نہيں چاہتا وہ مسلمان نہ ہو۔ کسي پر کوئي جبر نہيں ہے۔ جس حديث کي بنا پر مرتد کے قتل کا حکم اخذ کيا گيا ہے وہ درج ذيل ہے:

قال النبي صلي اللہ عليہ وسلم من بدل دينہ فاقتلوہ (بخاري ، رقم3017)

نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جو اپنا دين بدل دے اسے قتل کر دو۔

 اس حديث سے يہ بات سمجھي گئي ہے کہ دين کو اختيار کرنے ميں تو بے شک کوئي جبر نہيں جيسا کہ سورۂ بقرہ کي آيت سے واضح ہے ، ليکن ايک دفعہ جب آپ نے دين اختيار کر ليا ہے تو اب آپ اسے چھوڑ نہيں سکتے ، چھوڑيں گے تو آپ کو قتل کر ديا جاۓ گا۔ آپ کا يہ اختيار تو اب بھي باقي ہے کہ آپ چاہيں تو نيکي کريں اور چاہيں تو بدي اختيار کريں ، آپ چاہيں تو اپنے ليے جنت والے اعمال کر کے جنت کمائيں اور چاہيں تو دوزخ والے اعمال اختيار کر کے دوزخ کمائيں ، ليکن آپ کو يہ اختيار نہيں کہ آپ اسلام کو چھوڑ کر کوئي دوسرا دين اختيار کر ليں۔ تاہم درج ذيل حديث ہمارے سامنے اس سے بالکل مختلف صورت حال پيش کرتي ہے۔ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

امرت ان اقاتل الناس حتي يشھدوا ان لا الہ الا اللہ، وان محمدًا رسول اللہ ، ويقيموا الصلوۃ ، ويؤتوا الزکوۃ ، فاذا فعلوا عصموا مني دماءھم واموالھم الا بحقھا ، وحسابھم علي اللہ.(مسلم ، رقم22)

مجھے حکم ديا گيا ہے کہ ميں ان لوگوں سے جنگ کروں ، يہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کي شہادت ديں، نماز کا اہتمام کريں اور زکوۃ ادا کريں۔ وہ يہ شرائط تسليم کر ليں تو ان کي جانيں محفوظ ہو جائيں گي ، الا يہ کہ وہ اسلام کے کسي حق کے تحت اس حفاظت سے محروم کر ديے جائيں۔ رہا باطن کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔

اس حديث کے الفاظ ظاہراً ہميں يہ بتا رہے ہيں کہ لوگوں کي جانيں اس وقت تک نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے ہاتھ سے محفوظ نہيں جب تک کہ وہ مسلمان نہيں ہو جاتے۔ اگر يہ بات صحيح ہے تو پھر اس کا مطلب يہ ہوا کہ لوگوں کو مسلمان بھي جبرا ہونا پڑے گا اور پھر انھيں جبراً اس پر قائم بھي رکھا جاۓ گا ، جيسا کہ پچھلي حديث سے سمجھا گيا ہے۔ کيا يہ بات صحيح ہے؟ کيا اسلام اسي طرح کا جابرانہ مذہب ہے؟ کيا خدا نے انسان کو مذہب کے معاملے ميں انتخاب کي آزادي نہيں دي؟ کيا سورۂ بقرہ کي وہ آيت منسوخ ہو چکي ہے جس ميں يہ کہا گيا ہے کہ: لا اکراه في الدين۔ ” دين کو اختيار کرنے ميں کوئي جبر نہيں ہے”۔(البقرۃ2: 256)۔ يہ سب وہ سوالات ہيں جو ہميں اس پر مجبور کرتے ہيں کہ ہم يہ ديکھيں کہ قرآن و حديث کي بات سمجھنے ميں غلطي کہاں ہوئي ہے اور صحيح بات کيا ہے؟
استاذ محترم جاويد احمد صاحب غامدي نے اس موضوع پر اپني تحقيق درج ذيل الفاظ ميں بيان کي ہے:

” ارتداد کي سزا کا يہ مسئلہ محض ايک حديث کا مدعا نہ سمجھنے کي وجہ سے پيدا ہوا ہے۔ ابن عباس کي روايت سے يہ حديث بخاري ميں اس طرح نقل ہوئي ہے:

من بدل دينہ فاقتلوہ۔ ” 

جو اپنا دين بدل دے اسے قتل کر دو” (بخاري ، رقم3017)

ہمارے فقہا اسے بالعموم ايک حکم عام قرار ديتے ہيں جس کا اطلاق ان کے نزديک ان سب لوگوں پر ہوتا ہے جو زمانۂ رسالت سے لے کر قيامت تک اس زمين پر کہيں بھي اسلام کو چھوڑ کر کفر اختيار کريں گے۔ ان کي راۓ کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپني آزادانہ مرضي سے کفر اختيار کرے گا ، اسے اس حديث کي رو سے لازماً قتل کر ديا جاۓ گا۔ اس معاملے ميں ان کے درميان اگر کوئي اختلاف ہے تو بس يہ کہ قتل سے پہلے اسے توبہ کي مہلت دي جاۓ گي يا نہيں اور اگر دي جاۓ گي تو اس کي مدت کيا ہوني چاہيے۔ فقہاے احناف البتہ ، عورت کو اس حکم سے مستثني قرار ديتے ہيں۔ ان کے علاوہ باقي تمام فقہا اس بات پر متفق ہيں کہ ہر مرتد کي سزا ، خواہ وہ عورت ہو يا مرد ، اسلامي شريعت ميں قتل ہے۔ ليکن فقہا کي يہ راۓ محل نظر ہے۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا يہ حکم تو بے شک ثابت ہے ، مگر ہمارے نزديک يہ کوئي حکم عام نہ تھا ، بلکہ صرف انھي لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن ميں آپ کي بعثت ہوئي اور جن کے ليے قرآن مجيد ميں ’اميين‘ يا ’مشرکين‘ کي اصطلاح استعمال کي گئي ہے۔ ذيل ميں ہم اپنے اس نقطۂ نظر کي تفصيل کيے ديتے ہيں:
اس زمين پر ہر شخص اس حقيقت سے واقف ہے کہ دنيا ميں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع حاصل ہوا ہے ، وہ کسي حق کي بنا پر نہيں ، بلکہ محض آزمايش کے ليے ہے۔ عالم کا پروردگار جب تک چاہتا ہے ، کسي کو يہ موقع ديتا ہے اور جب اس کے علم کے مطابق آزمايش کي يہ مدت پوري ہو جاتي ہے تو موت کا فرشتہ آسمان سے اترتا ہے اور اسے يہاں سے لے جا کر اس کے حضور پيش کر ديتا ہے۔ عام انسانوں کے ليے يہ مدت اللہ تعالي اپنے علم و حکمت کے مطابق جتني چاہيں مقرر کرتے ہيں ، ليکن وہ لوگ جن ميں رسول کي بعثت ہوتي ہے اور جنھيں اس کے ذريعے سے براہ راست دعوت پہنچائي جاتي ہے ، ان پر چونکہ آخري حد تک اتمام حجت ہو جاتا ہے ، اس وجہ سے اس اتمام حجت کے بعد بھي وہ اگر ايمان نہ لائيں توان کے بارے ميں اللہ تعالي کا يہ قانون قرآن مجيد ميں پوري صراحت کے ساتھ بيان ہوا ہے کہ وہ پھر اس کي زمين پر زندہ رہنے کا حق کھو ديتے ہيں۔ زمين پر وہ آزمايش ہي کے ليے رکھے گۓ تھے اور رسول کے اتمام حجت کے بعد يہ آزمايش چونکہ آخري حد تک پوري ہو جاتي ہے ، اس وجہ سے اللہ تعالي کا قانون بالعموم يہي ہے کہ اس کے بعد زندہ رہنے کا يہ حق ان سے چھين ليا جاۓ اور ان پر موت کي سزا نافذ کر دي جاۓ۔ اس قانون کے مطابق رسول کے براہ راست مخاطبين پر موت کي يہ سزا اس طرح نافذ کي جاتي ہے کہ رسول اور اس کے ساتھيوں کو اتمام حجت کے بعد اگر کسي دارالہجرت ميں سياسي اقتدار حاصل نہ ہو سکے تو اللہ تعالي کا عذاب ابروباد کي ہلاکت خيزيوں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور رسول کي قوم کو موت کي نيند سلا ديتا ہے۔ قرآن مجيد سے معلوم ہوتا ہے کہ عاد و ثمود ، قوم نوح ، قوم لوط اور دوسري بہت سي قوميں اسي طرح زمين سے مٹا دي گئيں ، ليکن اس کے برعکس اگر رسول کو کسي سرزمين ميں سياسي اقتدار حاصل ہو جاۓ تو قوم کے مغلوب ہو جانے کے بعد اس کے ہر فرد کے ليے موت کي سزا مقرر کر دي جاتي ہے جو رسول اور اس کے ساتھي اس پر نافذ کرتے ہيں۔ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے ساتھ چونکہ يہي دوسري صورت پيش آئي ، اس وجہ سے اللہ تعالي نے حکم ديا کہ ’اميين‘ يعني آپ کي قوم ميں سے جو لوگ 9 ہجري ، حج اکبر کے دن تک بھي ايمان نہ لائيں ، ان کے ليے اسي تاريخ کو ميدان عرفات ميں اعلان کر ديا جاۓ کہ 9 ذوالحجہ سے محرم کے آخري دن تک ان کے ليے مہلت ہے۔ اس کے بعد بھي وہ اگر اپنے کفر پر قائم رہے تو موت کي سزا کا يہ قانون ان پر نافذ کر ديا جاۓ گا۔ چنانچہ فرمايا ہے:

 فاذا انسلخ الاشهر الحرم فاقتلوا المشرکين حيث وجدتموهم ، وخذوهم ، واحصروهم ، واقعدوا لهم کل مرصدٍ ، فان تابوا ، واقاموا الصلوة ، واتوا الزکوة ، فخلوا سبيلهم ، ان الله غفورٌ رحيمٌ۔

پھر جب حرام مہينے گزر جائيں تو ان مشرکين کو جہاں پاؤ ، قتل کر دو اور اس کے ليے ان کو پکڑو ، گھيرو اور ہر گھات ميں ان کے ليے تاک لگاؤ ، ليکن وہ اگر کفر و شرک سے توبہ کر ليں اور نماز کا اہتمام کريں اور زکوۃ ادا کرنے لگيں تو انھيں چھوڑ دو۔ بے شک ، اللہ مغفرت کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے۔ (التوبہ 9:5)

يہي قانون ہے جس کي وضاحت رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس طرح فرمائي:

امرت ان اقاتل الناس حتي يشھدوا ان لا الہ الا اللہ، وان محمدًا رسول اللہ ، ويقيموا الصلوۃ ، ويؤتوا الزکوۃ ، فاذا فعلوا عصموا مني دماءھم واموالھم الا بحقھا ، وحسابھم علي اللہ.(مسلم ، رقم22)

مجھے حکم ديا گيا ہے کہ ميں ان لوگوں سے جنگ کروں ، يہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کي شہادت ديں، نماز کا اہتمام کريں اور زکوۃ ادا کريں۔ وہ يہ شرائط تسليم کر ليں تو ان کي جانيں محفوظ ہو جائيں گي ، الا يہ کہ وہ اسلام کے کسي حق کے تحت اس حفاظت سے محروم کر ديے جائيں۔ رہا باطن کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔

 يہ قانون ، جيسا کہ ہم نے عرض کيا ، صر ف اميوں ، يعني نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي قوم کے ساتھ خاص تھا۔ ان کے علاوہ اب قيامت تک کسي دوسري قوم يا فرد کے ساتھ اس کا کوئي تعلق نہيں ہے، يہاں تک کہ وہ اہل کتاب جو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے زمانے ميں موجود تھے ، قرآن مجيد نے انھيں بھي اس سے بالصراحت مستثني قرار ديا ہے۔ چنانچہ سورۂ توبہ ميں جہاں اميوں کے ليے قتل کي يہ سزا بيان ہوئي ہے ، وہيں اہل کتاب کے بارے ميں صاف فرمايا ہے کہ وہ اگر جزيہ دے کر اسلامي رياست ميں ايک شہري کي حيثيت سے رہنا چاہيں تو ان سے کوئي تعرض نہيں کيا جاۓ گا۔ ارشاد خداوندي ہے:

قاتلوا الذين لا يؤمنون باللہ، ولا باليوم الاخر، ولا يحرمون ما حرم اللہ ورسولہ، ولا يدينون دين الحق من الذين اوتوا الکتب، حتي يعطوا الجزية عن يدٍ، وھم صاغرون. (9 : 29)

 ’’لڑو ان اہل کتاب سے جو نہ اللہ اور روز آخرت پر ايمان لاتے ہيں ، نہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام ٹھيرايا ہے ، اسے حرام ٹھيراتے ہيں اور نہ دين حق کي پيروي کرتے ہيں۔ ان سے لڑو ، يہاں تک کہ وہ مغلوب ہو کر جزيہ ادا کريں اور زير دست بن کر رہيں ۔

ہماري اس بحث سے اللہ تعالي کا يہ قانون اگر پوري طرح واضح ہو جاتا ہے تو اس کا يہ لازمي تقاضا بھي بالبداہت واضح ہے کہ ان اميوں ميں سے کوئي شخص اگر ايمان لانے کے بعد پھر کفر اختيار کرتا تو اسے بھي لامحالہ اسي سزا کا مستحق قرار پانا چاہيے تھا۔ وہ لوگ جن کے ليے کفر کي سزا موت مقرر کي گئي ، وہ اگر ايمان لا کر پھر اپني پہلي حالت کي طرف لوٹتے تو لازم تھا کہ موت کي يہ سزا ان پر بھي بغير کسي تردد کے نافذ کر دي جاۓ۔ چنانچہ يہي وہ ارتداد ہے جس کے بارے ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ’من بدل دينہ فاقتلوہ ‘۔ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے اس حکم ميں ’من‘ اسي طرح اميوں کے ليے خاص ہے ، جس طرح اوپر ’امرت ان اقاتل الناس‘ ميں ’الناس‘ ان کے ليے خاص ہے۔ حضور صلي اللہ عليہ وسلم کے ارشاد کي اصل جب قرآن مجيد ميں اس خصوص کے ساتھ موجود ہے تو اس کي اس فرع ميں بھي يہ خصوص لازماً برقرار رہنا چاہيے۔ ہمارے فقہا کي غلطي يہ ہے کہ انھوں نے ’الناس‘ کي طرح اسے قرآن ميں اس کي اصل سے متعلق کرنے اور قرآن و سنت کے باہمي ربط سے اس حديث کا مدعا سمجھنے کے بجاۓ ، اسے عام ٹھيرا کر ہر مرتد کي سزا موت قرار دي اور اس طرح اسلام کے حدود و تعزيرات ميں ايک ايسي سزا کا اضافہ کر ديا جس کا وجود ہي اسلامي شريعت ميں ثابت نہيں ہے۔” (برھان)

چنانچہ ايسا نہيں ہے کہ قرآن مجيد کي کسي آيت يا حديث کي کسي روايت ميں يہ لکھا ہوا ہے کہ قتل مرتد کي سزا صرف دور رسالت تک ہي محدو ہو گي اور ايسا ہونا بھي نہيں چاہيے۔ اگر خدا ايسا کرتا تو پھر وہ انسان سے علم کي آزمايش کو اٹھا ليتا اور وہ کسي بھي فقيہ کو پيدا نہ کرتا ، بلکہ آيات قرآني اور احاديث رسول کے صحيح فہم سے ہميں يہ معلوم ہوا کہ اصل بات يہ تھي کہ قتل مرتد کي سزا رسول کے اتمام حجت کا لازمي نتيجہ تھي۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-11

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading