سوال
مال اور پیداوار پر زکوٰۃ کی شرح کا اصول کیا ہے ؟ کرایوں سے ہونے والی آمدنی اور جائداد کے طور پر پڑی ہوئی زمین پر مال کی زکوٰۃ عائد ہو گی یا پیداوار کی،اس معاملے میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
جواب
مال اگر حد نصاب تک پہنچتا ہو تو اس پر ”کل مال کا ڈھائی فی صد” کے حساب سے زکوٰۃ عائد ہو گی۔ پیداوار اگر اصلاً محنت یا اصلاً سرمایے سے وجود میں آئے تو حدنصاب تک پیداوار پر کل پیداوار کا 10 فی صد زکوٰۃ کے طور پر دینا ہو گا اور اگر محنت اورسرمایہ ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو پھر اس کا 5 فی صد زکوٰۃ کے طور پر دینا ہو گا۔
بعض جدید ذرائع آمدن کے مال یا پیداوار سے الحاق کے بارے میں استاذ محترم غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے :
”…جو کچھ صنعتیں اِس زمانے میں وجود میں لاتیں اوراہل فن اپنے فن کے ذریعے سے پیدا کرتے اور جو کچھ کرایے، فیس اورمعاوضۂ خدمات کی صورت میںحاصل ہوتا ہے ، وہ بھی اگر مناط حکم کی رعایت ملحوظ رہے تو پیداوار ہی ہے۔ اِس وجہ سے اِس کا الحاق اموال تجارت کے بجاے مزروعات سے ہونا چاہیے اوراِس معاملے میں وہی ضابطہ اختیار کرنا چاہیے جوشریعت نے زمین کی پیداوار کے لیے متعین کیا ہے ۔
… اِس اصول کے مطابق کرایے کے مکان ، جائدادیں اوردوسری اشیا اگر کرایے پراٹھی ہوںتو مزروعات کی اوراگر نہ اٹھی ہوں تواُن پرمال کی زکوٰۃعائد کرنی چاہیے۔” (میزان 353۔354)
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-07-09