سوال
میرا سوال یہ ہے کہ کسی کے ساتھ کاروبار میں نجی طور پر پیسا ڈال کر نفع اور نقصان میں شریک ہونا اور منافع وصول کرنا اسلام میں جائز ہے یا نہیں؟ جناب پرویز صاحب اس کو بھی ربیٰ کی ہی ایک قسم کہتے ہیں۔ میں اس بارے میں غامدی صاحب کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ برائے مہربانی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔
جواب
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ آپ کے سوال کا جواب حاضر ہے۔
آپ نے پوچھا ہے کہ کسی کے پاس نفع و نقصان کی بنیاد پر سرمایہ لگانے کے بارے میں دین کا کیا حکم ہے۔ کیونکہ بعض لوگ اسے بھی سود ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔عرض یہ ہے کہ اس طرح کی شراکت بالکل جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صریح اسلوب میں فرمایا تھا کہ سود صرف اور صرف ادھار سے متعلق ہے۔ “انما الربا فی النسيئة “(مسلم:1596)
شراکت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کاروباری خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں اور شریک کار کو کسی لازمی اضافے کا پابند نہیں بنا رہے ہیں۔ سود اصلا اکل حرام بالباطل ہے۔ یعنی قرض دینے والا نہ صرف اصل رقم کو دوبارہ پیدا کرکے لوٹانے پر مصر ہے بلکہ اس پر مزید اضافے کا پابند بنا رہا ہے۔ یہاں دین نے اصل زر کے مطالبے کو جائز قرار دیا ہے اور اضافے کو حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس اضافے کا کوئی حق اسے حاصل نہیں ہے۔ اس کے برعکس شراکت دار منافع کی صورت میں منافع کا مطالبہ کرتا ہے اور منافع بھی اتنا جتنے میں وہ معاہدے کی رو سے شریک ہے۔ اور نقصان کی صورت میں بھی اسی ویلیو کا مطالبہ کرتا ہے جو ویلیو بچ رہی ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ صورت بالکل جائز ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-15