سوال
قتل مرتد کے بارے میں آپ کی راے یہ ہے کہ جن لوگوں میں براہ راست رسول مبعوث ہوں، ان میں سے ایمان قبول کرنے کے بعد اگر کوئی ارتداد کی راہ اختیار کرے تو وہ واجب القتل ہو گا۔ آپ کی راے قرآن وحدیث کے جن دلائل پر مبنی ہے، ازراہ کرم نقل کرکے عند اللہ ماجور ہوں۔
جواب
استاد محترم نے اپنی کتاب ”برہان” میں ”ارتداد” کی سزا کے ضمن میں اپنا استدلال جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ میں آپ کے لیے اسی کو نقل کر رہا ہوں۔ لکھتے ہیں:
”…ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ابن عباس کی روایت سے یہ حدیث بخاری میں اِس طرح نقل ہوئی ہے:
من بدل دینہ فاقتلوہ.(رقم ٣٠١٧)
”جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اُسے قتل کردو۔”
ہمارے فقہا اِسے بالعموم ایک حکم عام قرار دیتے ہیںجس کا اطلاق اُن کے نزدیک اُن سب لوگوں پرہوتا ہے جوزمانہئ رسالت سے لے کر قیامت تک اِس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔اُن کی راے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیار کرے گا، اُسے اِس حدیث کی رو سے لازماً قتل کردیا جائے گا۔اِس معاملے میں اُن کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اِسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اُس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔فقہاے احناف، البتہ عورت کو اِس حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔اُن کے علاوہ باقی تمام فقہا اِس بات پر متفق ہیں کہ ہر مرتد کی سزا،خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اسلامی شریعت میں قتل ہی ہے۔
لیکن فقہا کی یہ راے محل نظر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو، بے شک ثابت ہے، مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا، بلکہ صرف اُنھی لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن پر آپ نے براہ راست اتمام حجت کیا اور جن کے لیے قرآن مجید میں مشرکین کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
ذیل میں ہم اپنے اِس نقطہء نظر کی تفصیل کیے دیتے ہیں:
اِس زمین پر ہر شخص اِس حقیقت سے واقف ہے کہ دنیا میں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع حاصل ہوا ہے، وہ کسی حق کی بنا پر نہیں، بلکہ محض آزمایش کے لیے ہے۔ عالم کا پروردگار جب تک چاہتا ہے، کسی کو یہ موقع دیتا ہے اور جب اُس کے علم کے مطابق آزمایش کی یہ مدت پوری ہو جاتی ہے تو موت کا فرشتہ آسمان سے اترتا ہے اور اُسے یہاں سے لے جا کر اُس کے حضور پیش کر دیتا ہے۔
عام انسانوں کے لیے یہ مدت اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے مطابق جتنی چاہیں مقرر کرتے ہیں، لیکن وہ لوگ جن میں رسول کی بعثت ہوتی ہے اور جنھیں اُس کے ذریعے سے براہ راست دعوت پہنچائی جاتی ہے، اُن پر چونکہ آخری حد تک اتمام حجت ہو جاتا ہے ، اِس وجہ سے اِس اتمام حجت کے بعد بھی وہ اگر ایمان نہ لائیں تو اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون قرآن مجید میں پوری صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ وہ پھر اُس کی زمین پر زندہ رہنے کا حق کھو دیتے ہیں۔زمین پر وہ آزمایش ہی کے لیے رکھے گئے تھے اور رسول کے اتمام حجت کے بعد یہ آزمایش چونکہ آخری حدتک پوری ہو جاتی ہے ، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قانون بالعموم یہی ہے کہ اِس کے بعد زندہ رہنے کا یہ حق اُن سے چھین لیا جائے اور اُن پر موت کی سزا نافذ کر دی جائے۔
اِس قانون کے مطابق رسول کے براہ راست مخاطبین پر موت کی یہ سزا اِس طرح نافذ کی جاتی ہے کہ رسول اور اُس کے ساتھیوں کو اتمام حجت کے بعد اگر کسی دارالہجرت میں سیاسی اقتدار حاصل نہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب ابروباد کی ہلاکت خیزیوں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور رسول کی قوم کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ عادو ثمود، قوم نوح، قوم لوط اور دوسری بہت سی قومیں اِسی طرح زمین سے مٹا دی گئیں ، لیکن اِس کے برعکس اگر رسول کو کسی سرزمین میں سیاسی اقتدار حاصل ہو جائے تو قوم کے مغلوب ہو جانے کے بعد اُس کے ہر فرد کے لیے سزا مقرر کر دی جاتی ہے جو رسول اور اُس کے ساتھی اُس پر نافذ کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چونکہ یہی دوسری صورت پیش آئی، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مشرکین میں سے جو لوگ ٩ہجری، حج اکبر کے دن تک بھی ایمان نہ لائیں، اُن کے لیے اِسی تاریخ کو میدان عرفات میں اعلان کر دیا جائے کہ ٩ ذوالحجہ سے محرم کے آخری دن تک اُن کے لیے مہلت ہے۔ اِس کے بعد بھی وہ اگر اپنے کفر پر قائم رہے تو موت کی سزا کا یہ قانون اُن پر نافذ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ فرمایا ہے:
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْھُمْ وَاحْصُرُوْھُمْ وَاقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ. فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. (التوبہ ٩:٥)
”پھر جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکین کو جہاں پاؤ، قتل کر دو اور اِس کے لیے اُن کو پکڑو، گھیرو اور ہرگھات میں اُن کے لیے تاک لگاؤ ، لیکن وہ اگر کفر و شرک سے توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو اُنھیں چھوڑ دو۔ بے شک، اللہ مغفرت کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔”
یہی قانون ہے جس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس طرح فرمائی :
امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدًا رسول اللّٰہ ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکٰوۃ فاذا فعلوا عصموا منی دماء ھم واموالھم الا بحقھا وحسابھم علی اللّٰہ. (مسلم ، رقم ١٢٩)
”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اُن لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط تسلیم کر لیں تو اُن کی جانیں محفوظ ہو جائیں گی، الاّ یہ کہ وہ اسلام کے کسی حق کے تحت اِس حفاظت سے محروم کر دیے جائیں ۔ رہا باطن کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے ۔”
یہ قانون ، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، صر ف اُن مشرکین کے ساتھ خاص تھا جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست اتمام حجت کیا۔ اُن کے علاوہ اب قیامت تک کسی دوسری قوم یا فرد کے ساتھ اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے ، یہاں تک کہ وہ اہل کتاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے ، قرآن مجید نے اُنھیں بھی اِس سے بالصراحت مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ چنانچہ سورہئ توبہ میں جہاں مشرکین کے لیے قتل کی یہ سزا بیان ہوئی ہے، وہیں اہل کتاب کے بارے میں صاف فرمایا ہے کہ وہ اگر محکومی قبول کرکے اور جزیہ دے کر مسلمانوں کی ریاست میں ایک شہری کی حیثیت سے رہنا چاہیں تو اُن سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا ۔ ارشاد خداوندی ہے:
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ، وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ. (٩ : ٢٩)
” اُن اہل کتاب سے لڑوجو نہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاتے ہیں، نہ اللہ اور اُس کے رسول نے جو کچھ حرام ٹھیرایا ہے، اُسے حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی کرتے ہیں۔ اُن سے لڑو، یہاں تک کہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں اور زیر دست بن کر رہیں۔ ”
ہماری اِس بحث سے اللہ تعالیٰ کا یہ قانون اگر پوری طرح واضح ہو جاتا ہے تو اِس کا یہ لازمی تقاضا بھی صاف واضح ہے کہ اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص اگر ایمان لانے کے بعد پھر کفر اختیار کرتا تو اُسے بھی لامحالہ اِسی سزا کا مستحق ہونا چاہیے تھا۔ وہ لوگ جن کے لیے کفر کی سزا موت مقرر کی گئی ، وہ اگر ایمان لا کر پھر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹتے تو لازم تھا کہ موت کی یہ سزا اُن پر بھی بغیر کسی تردد کے نافذ کر دی جائے ۔ چنانچہ یہی وہ ارتداد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘من بدل دینہ فاقتلوہ ‘ ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں ‘من’ اُسی طرح زمانہئ رسالت کے مشرکین کے لیے خاص ہے ، جس طرح اوپر ‘امرت ان اقاتل الناس’ میں’الناس’ اُن کے لیے خاص ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اصل جب قرآن مجید میں اِس خصوص کے ساتھ موجود ہے تو اِس کی اِس فرع میں بھی یہ خصوص لازماً برقرار رہنا چاہیے۔ ہمارے فقہا کی غلطی یہ ہے کہ اُنھوں نے ‘الناس’کی طرح اِسے قرآن میں اِس کی اصل سے متعلق کرنے اور قرآن و سنت کے باہمی ربط سے اِس حدیث کا مدعا سمجھنے کے بجائے، اِسے عام ٹھیرا کر ہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اِس طرح اسلام کے حدودوتعزیرات میں ایک ایسی سز اکا اضافہ کر دیا جس کا وجود ہی اسلامی شریعت میں ثابت نہیں ہے۔ ‘ ‘(برہان ١٣٩-١٤٣)
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-11