سوال
جسے عرف عام میں سنت کہتے ہیں غامدی صاحب اسے معاملات اور عادت کہتے ہیں۔ تو کیا عرف عام میں جسے سنت کہا جاتا ہے اس کے ساتھ گناہ اور ثواب وابستہ ہے۔ پانی پینے کے حوالے سے جو سات سنتیں معروف ان کی کیا حقیقت ہے۔
جواب
آپ نے عرف عام کا تصور سنت لکھا ہے۔ یہ کوئی علمی تصور نہیں ہے۔ احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کا تصور سنت ہر گز یہ نہیں ہے۔ ان تمام مکاتب فکر میں کوئی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رہن سہن وغیرہ کے سنت ہونے کا قائل نہیں ہے۔ کسی عمل کے سنت ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اسے بطور دین اختیار کیا گیا ہو اور امت نے اسے دین کے طور پر آپ سے اخذ کیا ہو۔
آپ کے لباس کی وضع، آپ کا بستر، آپ کی تلوار کی ساخت، آپ کے کھانے اور اس طرح کے جتنے امور ہیں انھیں کبھی بھی دین کا حصہ نہیں سمجھا گیا۔ ان امور میں آنے والی تبدیلیاں ہر جگہ قبول کی گئی ہیں۔ چنانچہ ہر علاقے کے مسلمان اپنے اپنے طریقے کے مطابق رہن سہن رکھتے ہیں۔ یہ عوامی تصور سنت ہے اس کا کسی مکتب فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جو لوگ ان اعمال کے کرنے پر ثواب کے قائل ہیں اس کی وجہ کوئی علمی رائے نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے حسن عقیدت کا تصور کارفرما ہے۔ اصل میں حضور سے محبت اور عقیدت کی دینی اہمیت ہے اور اس میں اجر بھی ثابت ہے لیکن اسے دین کے بجائے حضور کی دنیوی امور سے وابستہ کرنا محل نظر ہے۔ اگر کوئی ان کو اپناتا ہے تو یہ اس کا اپنا جذبہ ہے لیکن اسے دینی تقاضے کے طور پر پیش کرنا درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پانی کی سات سنتیں بھی اسی قبیل کی چیز ہیں۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-13