سوال
حدیث کی تعریف کیا ہے یعنی حدیث کسے کہتے ہیں اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب
یہ دوسوال ہیں۔ میں یہاں استاد محترم جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب اصول مبادی سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں۔اس میں ان دونوں کا جواب موجود ہے۔ استاد محترم لکھتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ”حدیث” کہا جاتا ہے ، ان کے بارے میں ہمار ا نقطہ نظریہ ہے ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں، وہ درحقیقت، قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے ۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔”(میزان ، ص 15)
اس اقتباس میں سنت کا لفظ ایک خاص معنی میں استعمال ہوا ہے۔ دین کے مستقل بالذات اجزا میں سے کچھ قرآن مجید کی نص سے ماخوذ ہیں اور کچھ کا ماخذ اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ سنت سے یہ دوسرا حصہ مراد ہے۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں ہو سکتا ہے لیکن یہ ذکر ابتدائی حکم کی حیثیت سے نہیں ہوتا ، بلکہ ایک معلوم و معروف پہلے سے معمول بہ چیز کی حیثیت سے ہوتا ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-09-01