بینک کی ملازمت

16

سوال

کیا بینک کی ملازمت جائز ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ بینک ایک سودی ادارہ ہے اور اس کی ملازمت صحیح نہیں ہے، لیکن اگر میں اس میں ٹریننگ منیجر یا ٹریننگ کرنے والے شخص کی حیثیت سے ملازمت کرتا ہوں تو کیا میری یہ ملازمت جائز ہو گی؟

کیا بینک کے لیے اس نوعیت کا کام کیا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس ان لوگوں کو لایا جائے جو اپنی اشیا یا گھر وغیرہ رہن رکھ کر قرض لینا چاہتے ہوں، بینک اس طرح کا کام کرنے والے کو کمیشن دیتا ہے۔ چنانچہ کیا یہ کاروبار جائز ہو گا؟

جواب

1- بینک ایک سودی ادارہ ہے۔ اس ادارے کے ملازمین دراصل اس کے سودی نظام ہی کے ایجنٹ یا کارندے کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیتے اور اس کا معاوضہ لیتے ہیں۔ اسلام میں سود کھانا اور کھلانا صریحاً حرام ہے۔ چنانچہ سودی ادارے کی خدمات بھی ناجائز کام ہیں اور ان کا معاوضہ بھی حرام ہے۔
کسی بڑے عذر اور مجبوری کے تحت تو ایسا ہو سکتا ہے کہ آدمی کچھ دیر کے لیے بینک میں ملازمت کر لے، لیکن یہ ملازمت اصلاً جائز نہیں ہے۔

2- بینک کی ملازمت کرنا دراصل، ایک سودی ادارے کو اپنی خدمات پیش کرنا ہے۔ چنانچہ یہ انتہائی مجبوری کے سوا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے۔

3- اس کام میں آپ بینک کو سودی کاروبار مہیا کرکے اس سے اپنا معاوضہ لیں گے، یہ کام سود خوری میں بینک کی واضح معاونت ہے، لہٰذا یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-08

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading