سوال
فطرت سے کیا مراد ہے؟کیا انسان کی فطرت ایک خالی سلیٹ نہیں ہے؟ جس پر کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے؟ اور کیا ایسا نہیں ہے کہ آج کل انسانوں کی اکثریت کی فطرت مسخ ہو چکی ہے؟ ان سوالات کی روشنی میں یہ بتائیں کہ غامدی صاحب کی درج ذیل عبارت کا کیا مطلب ہے؟
”…اِس میں شبہ نہیں کہ اُس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے ،لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اِس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی اِن جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا ،بلکہ صرف یہ بتا کر کہ تمام طیبات حلال اور تمام خبائث حرام ہیں،انسان کو اُس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے ۔” (میزان36)
جواب
یہ بات صحیح نہیں ہے کہ انسان ایک خالی سلیٹ ہوتا ہے اور اس پر اس کا ماحول جو چاہے لکھ دیتا ہے، بلکہ صحیح بات وہ ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ ہر انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ یعنی ہر انسان کی سلیٹ پر اسلام اپنی اجمالی صورت میں لکھا ہوتا ہے،پھر اس کے والدین اس لکھے ہوئے پر گرد ڈال کر (مٹا کر نہیں) اسے اپنے کسی مسلک پر لے آتے ہیں۔ اگر وہ اس کی فطرت کو مٹا سکتے ہوں تو پھر تو اسے کبھی اسلام یاد دلایا ہی نہیں جا سکتا۔
آپ کہتے ہیں کہ آج انسانوں کی اکثریت کی فطرت مسخ ہو چکی ہے ، کیونکہ وہ سانپ وغیرہ کھا رہے ہیں۔ کیا آپ کی مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت اپنے اندر یہ بنیادی تبدیلی پیدا کر چکی ہے کہ اب وہ پاکیزہ اشیا کے بجاے خبیث اشیا کھائے گی اور اب اسے خوشبودار پھل کے بجاے بدبودار پاخانہ خوشگوار لگے گا یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسانوں کی اکثریت، بلکہ سارے ہی انسان آج بھی اپنی اس فطرت سے تو نہیں ہٹے کہ وہ پاکیزہ چیزیں ہی پسند کریں اور خبیث چیزوں ہی سے نفرت کریں۔ چنانچہ انھیں آج بھی خوشبودار پھل ہی اچھا لگتا ہے اور بدبودار پاخانہ لازماً برا لگتا ہے، البتہ مسئلہ یہاں پیدا ہوا ہے کہ کیا چیز خبیث ہے اور کیا طیب ہے، اسے طے کرنے میں وہ غلطی کرنے لگ گئے ہیں۔
اگر آپ یہ دوسری بات کہتے ہیں تو اس سے ہمیں اتفاق ہے کہ انسان طیب و خبیث کے اطلاق میں غلطی کھا گیا ہے، لیکن یہ غلطی اس نے آج ہی نہیں، ماضی میں بھی کھائی ہے۔ مثلاً ،آپ جان دار اشیا کے معاملے میں ان کی حلت و حرمت اور ان کے خبیث و طیب ہونے کے پہلو سے فقہا کے باہمی اختلافات کو دیکھیے۔ ذیل میں ہم انھیں بیان کیے دیتے ہیں:
امام ابو حنیفہ کی راے یہ ہے کہ سمندر کا ہر مردار حلال نہیں، صر ف مچھلی ہی حلال ہے۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مینڈک اور مگرمچھ کے علاوہ سمند رکا باقی سب مردار حلال ہے۔ ابن ابی لیلیٰ، امام شافعی اور امام مالک کہتے ہیں کہ سمندر کا ہر مردار حلال ہے (کچھوا، مینڈک، مگرمچھ حتیٰ کہ عجیب الخلقت جانور بھی)۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، اشہب اور اصحاب مالک رحمہم اللہ، یہ سب کہتے ہیں کہ درندوں کا گوشت حرام ہے، لیکن علما کے مابین درندے کی تعریف میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ گوشت کھانے والا ہر جانور درندہ ہے، حتیٰ کہ ہاتھی، گوہ، بلی اور یربوع (چوہے کی طرح کا جانور) بھی درندے ہیں، لہٰذا یہ سب حرام ہیں۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ حرام درندے وہ ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں، جیسے شیر، چیتا اور بھیڑیا۔ چنانچہ ان کے نزدیک گوہ اور لومڑی کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ جمہور علما پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام قرار دیتے ہیں، البتہ حضرت ابن عباس اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما گدھے کے گوشت کو حلال قرار دیتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام مالک اسے مکروہ کہتے ہیں۔ امام مالک، امام ابو حنیفہ اور علما کی ایک جماعت کے نزدیک گھوڑے کا گوشت حرام ہے، لیکن امام شافعی، امام ابو یوسف، امام محمد اور علما کا ایک گروہ اسے حلال قرار دیتا ہے۔حشرات الارض جیسے مینڈک، کیکڑا، کچھوا اور اس طرح کے دوسرے جانور امام شافعی کے نزدیک حرام ہیں، لیکن دوسرے فقہا کے نزدیک یہ حلال ہیں، البتہ بعض علما نے انھیں صرف مکروہ کہا ہے۔
علما کے درمیان یہ اختلاف اس دائرے میں ہوا ہے کہ فلاں فلاں جانوروں میں سے کس پر طیب ہونے کا اطلاق ہوتا ہے اور کس پر خبیث ہونے کا۔ آپ دیکھیے کہ اطلاق کا یہ اختلاف انھیں ایک دوسرے سے کتنا مختلف کر دیتا ہے۔ اگر حلال اور حرام جانوروں کی کوئی فہرست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہمیں مل جاتی تو یہ اختلاف نہ ہوتا، لیکن اس طرح کی کوئی فہرست ہمیں نہیں دی گئی، بلکہ حلت و حرمت کا ایک اصول (طیبات و خبائث) انسان کو دے دیا گیا اور اسے کہا گیا کہ وہ اس کی روشنی میں جانوروں کا حلال و حرام طے کرے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اطلاق اسے اپنی عقل و فطرت ہی کی روشنی میں کرنا تھا،وہ اس کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے یہی کیا ہے۔
اب مجھے آپ بتائیے کہ غامدی صاحب نے اس سے ہٹ کر اور کیا بات کی ہے، البتہ انھوں نے جو نئی بات کہی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کہیں اختلاف ہو جائے تو اس اختلاف کو ذریت ابراہیم کے رجحان کی روشنی میں حل کیا جائے۔
چنانچہ جہاں تک غامدی صاحب کے اس جملے کا تعلق ہے کہ :
”دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ ”
تو اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے کہ انسانوں کی اکثریت نے کبھی ایسا فیصلہ نہیں کیا کہ وہ طیبات کی جگہ خبائث کو اپنائے، یعنی بکروں اور گایوں کے بجاے بھیڑیوں، ریچھوں، چیتوں، شیروں اور ہاتھیوں کو اپنی خوراک بنائے، البتہ یہ تو ہو ہی سکتا ہے کہ کسی علاقے کے لوگ بعض خبیث چیزوں کو طیب سمجھنے لگ جائیں۔
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-07-08