سوال
کیا ہمیں فقہ یا مسالک کی تقلید کی ضرورت ہے؟
جواب
انسان علم کے معاملے میں مختلف سطحوں پر ہوتے ہیں۔ ہر سطح کے اعتبار سے طریق کار مختلف ہے۔ وہ آدمی جو دین کی واجبی معلومات رکھتا ہے اور کسی ایک نقطۂ نظر کو اختیار کیے ہوئے ہے، وہ اپنے مسلک کے مطابق ہی جیے گا اور یہی اس کے لیے ضروری بھی ہے۔ اس آدمی کو یہ کہنا کہ تم براہ راست قرآن وسنت سے دین کے مسائل معلوم کرو،درست نہیں ہے۔ دین کی صحیح بصیرت اور اس کے فنون کا اچھا علم حاصل کیے بغیر یہ کام کرنا کسی بھی صورت میں روا نہیں ہے۔اس آدمی کے لیے ہر حال میں تقلید ہی کا راستہ ہے، اس کے لیے صرف یہی ممکن ہے کہ یہ ایک عالم کی تقلید چھوڑ کر دوسرے عالم کی تقلید اختیار کر لے۔
دوسرا آدمی وہ ہے جو عالم ہے، وہ اپنے مسلک کا استدلال سمجھ سکتا ہے اور اگر اس کے مسلک پر اعتراض کیا جائے تو اس کا جواب بھی دے سکتا ہے۔یہ آدمی اس بات کا مکلف ہے کہ اگر اسے کوئی اعتراض قوی لگے اور اپنے مسلک کی غلطی اس پر واضح ہو جائے تو یہ اسے چھوڑ دے اور اس مسئلے کی حد تک اپنے مسلک میں ترمیم کر لے۔
تیسرا آدمی وہ ہے جو علوم دینیہ پر گہری نظر پیدا کر لیتا ہے۔ تمام مجتہدین کا کام اس کے سامنے ہوتا ہے اور وہ اصول ومبادی سے فروع ومسائل تک نظر ثانی کی اہلیت پیدا کر لیتا ہے۔ یہ آدمی کبھی کسی فقہ یا مسلک کا مقلد نہیں ہوتااور اگر ہوتا ہے تو اسی وقت تک جب وہ کسی مسئلے میں خود تحقیق کرکے اپنی کوئی راے قائم نہیں کر لیتا۔
یہ ایک نمایاں تقسیم ہے۔ اس سے ہر فرد آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وہ کہاں واقع ہے اور تقلید کے معاملے میں اسے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہم میں سے ہر آدمی کو حق کے سچے طلب گار کی حیثیت سے جینا ہے۔ اسے صرف وہی چیز دین کے طور پر اختیار کرنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری ہوئی ہے۔ اسے اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اس چیز کی تسلی کا اہتمام کرنا ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے دین پر عمل پیرا ہے۔ وہ جس عالم کا پیروکار ہے، وہ اسے صرف اور صرف وہی چیز دین کے طور پر بتاتا ہے جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-28