سوال
گزاش یہ ہے کہ عوام الناس میں جب ہم اس استدلال کو بیان کرتے ہیں جسےہم درست سمجھتے ہیں تو وہاں اس بات کا موقع نہیں ہوتاکہ دین کا بنیادی تصور واضح کیا جاے یا اصول و مبادی اور انکے درست مخرج و منبع کی وضاحت کی جائے خاص طور پر جہاں پہلے ہی لوگ مخصوص علمی حلقے کے زیر اثر محدود دینی تصور رکھتے ہوں، وہاں تو فوری طور پر چند دلائل درکار ہوتے جو اس استدلال کی قبولیت کہ حق میں دیئے جائیں، سوال سے میرا مقصد صرف یہی تھا کہ جس طرح قرآن حکیم میں انبیا کی داڑھیوں کے متعلق اشارے، نبی اکرم کے واضح ارشادات، صحابہ کا عمل، سلف کی تشریحات، اور امت کا تواتر، داڑھی کی حجیت پر عمومی دلالت کرتے ہیں، اسی عمومی نوعیت کہ چند دلائل اگر فراھم ہوسکتے تو حلقہ احباب میں اپنی بات کو موکد کرنے اور عوام الناس کے اولین اعتراض کا جواب دینے کی کوئی صورت مجھ ایسے مبتدی کے لیے بھی پیدا ہو جاتی۔
جواب
داڑھی کے حوالے سے میں نے جو کچھ لکھا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ علمی مشکل سامنے رہے جو اصل میں حل طلب ہے۔ کسی وجہ سے آپ کو میرا جواب اچھا نہیں لگا اس پر میں معذرت خواہ ہوں۔ باقی رہے وہ لوگ جو داڑھی کو دین سمجھتے ہیں۔ ان کا استدلال اصلا ایک اصول پر قائم ہے اور وہ یہ ہے کہ جو عمل حضور کریں اور مثبت طور پر لوگوں کو کرنے کے لیے کہیں وہ دین ہے۔ اب یہ واقعہ ہے کہ حضور نے داڑھی رکھی اور مثبت انداز میں اس کو رکھنے کو بھی کہا۔ لہذا ان کے نزدیک اس کو دین نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
یہ اصول بالکل ٹھیک ہے لیکن یہ مطلق نہیں ہے۔ دین کے دائرے کے ساتھ مختص ہے۔ اگر کوئی علمی آدمی ہو تو اس سے اس اصول ہی پر گفتگو ہونی چاہیے البتہ عام آدمی آپ نے ٹھیک لکھا ہے کہ اس گفتگو کا مخاطب نہیں ہوتا۔
میرا طریقہ یہ ہے کہ میں عام آدمی سے اول تو اس موضوع پر گفتگو کرنے سے گریز کی راہ نکالتا ہوں اور اگر کرنی پڑے تو اسے دونوں آرا بتا دیتا ہوں اور کسی رائے پر اصرار نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اصل کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کا رخ آخرت کی طرف کیا جائے۔ ان کے اندر توبہ و اصلاح اور سچی حق پرستی پیدا کی جائے۔ فقہی اور علمی نقطہ نظر کوئی بھی ہو نجات ہو جائے گی شرط یہ ہے کہ آدمی مخلص لہ الدین ہو۔
یہاں یہ واضح رہے کہ میری رائے داڑھی رکھنے کے حق میں ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-14