ڈاڑھی کا مسئلہ

25

سوال

میں نے غامدی صاحب کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ڈاڑھی کا
دینی احکام سے کوئی تعلق نہیں اور ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں، لیکن علامہ راشدی
صاحب نے اپنے خطاب میں ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ ”مجھے میرے رب نے حکم
دیا ہے کہ میں ڈاڑھی بڑھاؤں اور مونچھوں کو گھٹاؤں۔” اس ضمن میں آپ کی
کیا رائے ہے؟

جواب

دین میں ڈاڑھی کی حیثیت کے بارے میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے دو قول ہیں۔ قول جدید کے مطابق یہ ان کے نزدیک کوئی دینی نوعیت رکھنے والی چیز نہیں، جبکہ قول قدیم یہ ہے کہ اسے دین کے ایک شعار اور انبیا کی سنت کی حیثیت حاصل ہے۔ ١٩٨٦ء میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے لکھا کہ:”ڈاڑھی نبیوں کی سنت ہے۔ ملت اسلامی میں یہ ایک سنت متواترہ کی حیثیت سے ثابت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان دس چیزوں میں شمار کیا ہے جو آپ کے ارشاد کے مطابق اس فطرت کا تقاضا ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

لا تبديل لخلق الله ذلك الدين القيم ولکن اکثر الناس لا يعلمون

”اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔”

”بنی آدم کی قدیم ترین روایت ہے کہ مختلف اقوام و ملل اپنی شناخت کے لیے کچھ علامات مقرر کرتی ہیں۔ یہ علامات ان کے لیے ہمیشہ نہایت قابل احترام ہوتی ہیں۔ زندہ قومیںاپنی کسی علامت کو ترک کرتی ہیں، نہ اس کی اہانت گوارا کرتی ہیں۔ اس زمانے میں جھنڈے اور ترانے اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو ہر قوم میں یہی حیثیت حاصل ہے۔ دین کی بنیاد پر جو ملت وجود میں آتی ہے، اس کی علامات میں سے ایک یہ ڈاڑھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دس چیزوں کو فطرت میں سے قرار دیا ہے، ان میں سے ایک ختنہ بھی ہے۔ ختنہ ملت ابراہیمی کی علامت یا شعار ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ڈاڑھی کی حیثیت بھی اس ملت کے شعار کی ہے، چنانچہ کوئی شخص اگر ڈاڑھی نہیں رکھتا تو وہ گویا اپنے اس عمل سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ ملت اسلامی میں شامل نہیں ہے۔ اس زمانے میں کوئی شخص اگر اس ملک کے علم اور ترانے کو غیر ضروری قرار دے تو ہمارے یہ دانش ور امید نہیں ہے کہ اسے یہاں جینے کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔ لیکن اسے کیا کیجیے کہ دین کے ایک شعار سے بے پروائی اور بعض مواقع پر اس کی اہانت اب ان لوگوں کا شعار بن چکا ہے۔ ہمیں ان کے مقابلے میں بہرحال اپنے شعار پر قائم رہنا چاہیے۔” (اشراق، ستمبر ١٩٨٦)

میری طالب علمانہ رائے میں ڈاڑھی کو ایک امر فطرت کے طور پر دینی مطلوبات میں شمار کرنے کے حوالے سے استاذ گرامی کا قول قدیم اقرب الی الصواب ہے۔ البتہ اس میں ڈاڑھی کو ”شعار” مقرر کیے جانے کی جو بات کہی گئی ہے، اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ روایات کے مطابق صحابہ وتابعین کے عہد میں بعض مقدمات میں مجرم کی تذلیل کے لیے سزا کے طور پر اس کی ڈاڑھی مونڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس نوعیت کے فیصلے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سعد بن ابراہیم اور عمرو بن شعیب سے منقول ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ٣٣٥٢٨۔ اخبار القضاۃ لوکیع ١/١٥٩) اگر یہ حضرات ڈاڑھی کو کوئی باقاعدہ شعار سمجھتے تو یقینا مذکورہ فیصلہ نہ کرتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی علاقے کے مسلمان اجتماعی طور پر کوئی جرم کریں اور سزا کے طور پر ان کی کسی مسجد کو منہدم کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح ڈاڑھی کو دینی شعار سمجھتے ہوئے اسے تعزیراً مونڈ دینے کا فیصلہ بھی ناقابل فہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے فقہا کے ہاں عام طور پر یہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تعزیر کے طور پر کسی مسلمان کی ڈاڑھی نہیں مونڈی جا سکتی۔ واللہ اعلم

مجیب: Sajid Hameed

اشاعت اول: 2015-09-30

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading