سوال
یک مشہور روایت ہے کہ ایک خاتون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے زنا کا اعتراف کیا۔ آپ نے فرمایا کہ وضع حمل کے بعد آنا…۔ بعدازاں آپ نے اس کو سنگسار کرایا، اس خاتون کو سنگسار کیوں کیا گیا، اس کو سو کوڑے کیوں نہ لگائے گئے، کیا وہ حرابہ کی مرتکب ہوئی تھی؟
جواب
یہ سوال ایک اصولی حقیقت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ میں اپنی بات کو مثال سے واضح کرتا ہوں۔ اخبارات میں آئے دن مقدمات کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان خبروں سے قانونی ضوابط کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ اخباری بیانات، صحافیانہ رپورٹوں اور حقیقی عدالتی طریق کار اور قانونی دفعات کے اطلاق کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمات کے فیصلوں سے متعلق روایات واقعات کا محض جزوی بیان ہیں۔ راوی نے معلوم نہیں واقعے کے کن اہم پہلوؤں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ زنا کی سزا قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح حرابہ کی سزا بھی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ہم ذرہ برابر شبے کے بغیر یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قانون اور انصاف کے سب تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر مجرموں کو سزائیں دی ہیں۔جس مجرم کو حرابہ کی سزا دی گئی ہے، وہ یقینا اسی سزا کا مستحق تھا۔ کسی راوی کے بیان سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔
اصولی بات یہ ہے کہ واقعات سے قانون اخذ کرنا درست نہیں، قانون کی روشنی میں واقعات کو سمجھا جائے گا۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-04