سوال
quranڈاکٹر طہ حسین (وزیر تعلیم مصر) کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ قرآن مجید میں املا اور گرامر کی غلطیاں ہیں۔ کچھ اور محقیقین نے بھی اس طرح کے دعوے کیے ہیں۔اس ہرزہ سرائی کی کیا حقیقت ہے؟
جواب
املا اور گرامر دو الگ الگ موضوعات ہیں۔ املا میں صحابہ کے بعد بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ظاہر ہے تلفظ اور مادے کی رعایت سے کی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں بعض جگہ پر صحابہ رضوان اللہ علیہم کی املا ان تبدیلیوں کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن قرآن مجید میں ان کے حوالے سے تبدیلی نہیں کی گئی تاکہ قرآن مجید کی صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ساتھ نسبت پوری طرح قائم رہے ۔
باقی رہا گرامر کا معاملہ تو اس میں طہ حسین اور اس کے ہمنواؤں کی بات بالکلیہ غلط ہے۔ گرامر کے قواعد اہل زبان کے تعامل کو سامنے رکھ کر متعین کیے جاتے ہیں۔ ان کی صحت وعدم صحت اہل زبان کے عمل کی کسوٹی پر پرکھ کر طے کی جاتی ہے ان کی روشنی میں اہل زبان کو غلط قرار نہیں دیا جاتا۔ قرآن مجید میں کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں ہے جو عربوں کے معروف اسالیب اور تراکیب کے مطابق نہ ہو۔ زمخشری ، سیبویہ اور ابن ہشام جیسے نحوی اپنے قواعد کے لیے سب سے محکم شاہد قرآن مجید کے جملوں کو قرار دیتے ہیں اور اعتماد کے ساتھ قرآن مجید سے مثالیں نقل کرتے ہیں۔ یہ اہل فن کے ہاں مسلم ہے کہ گرامر کی کوئی کتاب زبان کے تمام امکانات کا احاطہ نہیں کرتی۔ چنانچہ نئے ماہرین اس کمی کی تلافی کا کام جاری رکھتے ہیں۔ اگر کسی کو قرآن مجید کا کوئی جملہ اپنی مزعومہ گرامر کے مطابق نظر نہیں آتا تو اسے چاہیے کہ اسے اپنے علم کی کمی سمجھے۔ یہاں میں یہ بھی عرض کر دوں کہ آج تک نحوی غلطیوں کی جو مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں ان کا تجزیہ کرکے بتا دیا گیا ہے کہ یہ دعوی درست نہیں ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-09-29