سوال
٢٠٠٨ کے اواخر سے فلسطین کے مغربی کنارے کے مسلمان اپنے گھروں کے بجائے کھنڈر میں رہ رہے ہیں اور بچے، جو کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں، خوراک کی کمی کا شکار رہی۔ تقریباً ہر اسکول کی عمارت تباہ ہو چکی ہے کیونکہ اسرائیل غیر قانونی طور پر بچوں کی غذا، سیمنٹ، کاغذ اور زندگی بچانے والی دواؤں تک رسائی میں رکاوٹ ڈالے ہوئے ہے۔ فلسطین کا صدر ایک ایسا شخص ہے جسے زیادہ تر لوگ نہیں چاہتے۔ وہ اس لیے اس منصب پر براجمان ہے کہ اسرائیل اور اس کے اتحادی ان لوگوں سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے جنھیں انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔ تمام مسلمان ممالک کے سربراہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اپنے بدعنوان لیڈروں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی توقع نہیں رکھتے جبکہ اچھی سیاسی تنظیموں اور گروپوں کو مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرنے کی پوزیشن میں آتے آتے کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔ اس صورت حال میں کوئی ایک چھوٹا سا گروہ ایک Tactical Solution کے طو رپر مسلح جدوجہد کیوں شروع نہیں کر سکتا؟
جواب
آپ کے سوال کا جواب آپ کے سوال ہی میں مضمر ہے، کیونکہ جس صورت حال کو آپ نے کسی ایک گروہ کی طرف سے مسلح جدوجہد کرنے کے جواز کے طو رپر پیش کیا ہے، دراصل وہی اس کے عدم جواز کی دلیل ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے غیر مسلموں کے زیر تسلط کسی علاقے میں مسلح مزاحمت کا حق چند افراد یا کسی ایک گروہ کا حق نہیں، بلکہ پوری قوم کا اجتماعی حق ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کے جواز کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے قوم کی اجتماعی تائید اور پشت پناہی حاصل ہو اور قوم اس کے لازمی نتائج کا سامنا کرنے اور اس کے لیے درکار جانی ومالی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ اگر قوم اپنی مجموعی حیثیت میں ایسے کسی فیصلے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو یا اس کے لیے آمادہ نہ ہو تو کسی گروہ کا ازخود کوئی فیصلہ کر کے اسے عملی نتائج کے اعتبار سے ساری قوم پر تھوپ دینا شرعاً واخلاقاً درست نہیں ہے۔ اس وجہ سے اگر مقبوضہ علاقے کے مسلمان داخلی طو رپر اتحاد اور یک جہتی سے محروم اور باہم برسرپیکار ہوں تو دین وشریعت کا تقاضا یہ نہیں ہوگا کہ کوئی ایک گروہ اٹھ کر ازخود مسلح جدوجہد کا آغا زکر دے۔ دین اور عقل عام دونوں کا پہلا مطالبہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ مسلمان باہمی اختلاف وعناد اور نزاعات کو ختم کر کے ایک متحد قوم کی شکل اختیار کریں اور اس کے بعد ‘امرهم شوریٰ بينهم’ کے اصول کے تحت حصول آزادی کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کریں جو میسر حالات میں زیادہ قابل عمل، مفید اور نتیجہ خیز ہو اور اسے قوم کی اجتماعی تائید بھی حاصل ہو۔ محکوم قوم کی باہمی تقسیم وافتراق کی معروضی صورت حال کو نظر انداز کر کے کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ نہ تو مذکورہ شرعی واخلاقی اصول کے لحاظ سے درست ہوگا، نہ عملی طو رپر ایسی کسی کوشش کے مفید نتائج نکل سکتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ایسی صورت میں نصرت اور تائید کی توقع کی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید نے سورہ آل عمران کی آیت ١٥٢ (حتی اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر وعصيتم) اور سورہ انفال کی آیت ٤٦ (لا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحکم) میں نصرت الٰہی کے اس اخلاقی اصول کی خود وضاحت کی ہے۔
مجیب: Ammar Khan Nasir
اشاعت اول: 2015-10-10