سوال
میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں سائنٹفک اسٹنٹ ہوں۔ سرکاری ملازمین کو پندرہ تنخواہوں کے برابر قرضہ دیتا ہے۔ جس پر وہ گیارہ فیصد سالانہ سود لیتا ہے۔ بعض علماء اسے صریح حرام قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اس سے اجتناب کا حکم دیتے ہیں۔ جبکہ بعض علماء نزدیک اس سے بچنا چاہیے لیکن انتہائی ناگزیر حالات ہوں تو اسے لیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک میرے محدود علم کا تعلق ہے قرآن میں قرض خواہ کو سود کھانے سے منع کیا گیا ہے اور تنقید کا موضوع قرض خواہ ہے جبکہ مقروض کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس پر اپنی رائے دیجیے۔
جواب
آپ کی یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید میں جس چیز کو جرم قرار دیا گیا ہے وہ سود خوری ہے۔ آپ نے جس اختلاف کا ذکر کیا ہے اس کا باعث قرآن مجید کی کوئی آیت نہیں ہے۔ سود دینے کو گناہ قرار دینے والوں کی بنائے استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ مسلم میں نقل ہوا ہے:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٰکل الربوٰا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال: ہم سوائ٠
مسلم،رقم١٥٩٨
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے اور اس دستاویز کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔”
اس روایت کے لفظ ـ’مؤکل’ (کھلانے والے) کا اطلاق عام طور پر علماء اس آدمی پر کرتے ہیں جو قرض پر سود ادا کرتا ہے۔ استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی مدظلہ کی تحقیق یہ ہے کہ ـ’مؤکل’ کا لفظ سودی کاروبار کے ایجنٹ کے لیے ہے۔ اس لفظ کا عام طور پر طے کردہ مفہوم ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک، سود ادا کرنا ایک کوتاہی ضرور ہے لیکن اسے حرام قرار دینا مناسب نہیں ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-09-02