سوال
ہم یہ بات اپنے علما سے بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ دین میں قرآن کریم کو حفظ کرنے کی فضیلت اتنی زیادہ ہے کہ حافظِ قرآن کے اہل خانہ اُس کی سفارش سے جنت میں داخل کردیے جائیں گے،اگرچہ وہ دوزخ کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ دین میں حفظِ قرآن کی اِس غیر معمولی فضیلت کا اصل ماخذ اور حیثیت کیا ہے ؟ اور کیا واقعتا یہ دین میں ثابت بھی ہے؟
جواب
بنیادی طور پر یہ بات واضح رہے کہ کتاب اللہ کی حیثیت سے قرآن مجید کو پڑھنا، سیکھنا اوراُسے حفظ کرلینا بلاشبہ دین میں بڑی اہمیت کا حامل اور بجائے خود ایک باعثِ اجر وفضیلت عمل ہے۔ پھر آدمی اللہ کی کتاب کو سمجھے اوراُس سے ہدایت حاصل کرے تو یہ اصل مطلوب ہے۔ کتاب اللہ کو سینوں میں محفوظ کرلینا مسلمانوں کی ایک ایسی غیر معمولی روایت ہے جو اِس صحیفۂ خداوندی کی حفاظت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
جہاں تک حفظِ قرآن کی اِس فضیلت کا تعلق ہے کہ جو شخص محض اِسے حفظ کرلے تو آخرت میں اُس حاملِ قرآن کا تنہا یہ عمل اُس کی اور اُس کے اہل خانہ کی نجات کا یقینی ذریعہ بن جائے گا؛تو یہ مقدمہ جاننا چاہیے کہ محلِ نظر ہے۔ اِس کی وجہِ شہرت اور ماخذ اِس مضمون پر مشتمل ایک روایت ہے جو حدیث کی بعض کتابوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے نقل ہوئی ہے۔جس کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے :
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے قرآن سیکھا ،اُسے اپنے سینے میں محفوظ کرلیا اور پھر اُس کی حفاظت کی اور یاد رکھا تو اللہ تعالٰی اُسے جنت میں داخل کریں گے۔اور اُس کی سفارش اُس کے اُن دس اہل خانہ کے بارے میں قبول کریں گے جن سب پر آگ واجب ہوچکی ہوگی “۔
بعض طرق میں صاحب قرآن کے کتاب اللہ کو اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کے ساتھ یہ شرط بھی بیان ہوئی ہے کہ وہ اِس کتاب کے حلال کو اپنے لیے حلال اور حرام کو حرام رکھے۔۔۔الخ۔
یہ روایت الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مسند احمد(رقم:1278،1268)،جامع ترمذی (رقم:2905)،سنن ابن ماجہ(رقم:216)،اور شعب الایمان(رقم:2460،1799،1798) میں نقل ہوئی ہے۔
جہاں تک اِس روایت کی سَندی حیثیت کاتعلق ہے توواقعہ یہ ہے کہ اِن تمام مصادر میں مذکور اِس روایت کی کوئی ایک سند بھی ثابت نہیں ہوتی۔اِس کی تمام اسانید انتہائی “ضعیف” درجے کی ہیں۔ تحقیقِ سند کے اعتبار سے سب کے سب ناقابل اعتبار ہیں۔زیادہ تر اسانید میں ایک راوی جو علماے رجال کے نزدیک نہایت ضعیف اور “متروكالحدیث” ہے اورجس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام بھی ہے ؛وہ “ابو عمر حفص بن سلیمان الاسدی” ہے جو اِس روایت کے اکثر طرق میں موجود ہے۔ اِس راوی کی سند میں موجودگی ہی روایت کو ناقابل اعتبار قرار دینے کے لیے کافی ہے۔بیہقی کی سند میں ایک راوی “سلم بن سالم بلخی”بھی ضعیف الحدیث ہے۔ اِسی طرح اِن تمام اسانید میں متعدد رواۃ “مجهول الحال” اور “ضعیف” ہیں۔جیسے ترمذی ،ابن ماجہ اور بیہقی کی اسانید میں “کثیر بن زاذان” مجہول الحال اور امام احمد کے طریق میں “عمرو بن عثمان الکلابی” ضعیف الحدیث ہے۔امام ترمذی نے اِس روایت کو ذکر کرنے کے بعد خود اِسے “غریب” قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اِس روایت کی کوئی سند بھی صحت کو نہیں پہنچتی۔(سنن الترمذی،5/171۔رقم:2905)
معاصر عالم و محدث شیخ شعیب الارناؤوط نے مسند احمد اور ابن ماجہ پر اپنی تحقیق میں بھی اِس روایت کو نہایت ضعیف قرار دیا ہے۔(ابن ماجہ بتحقیق الشیخ الارناؤوط وآخرون ،1/146۔174۔مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ الارناؤوط، رقم:1277،1267)
اسی طرح امام حدیث شیخ ناصرالبانی نے ترمذی اورابن ماجہ پر اپنی تحقیق میں بھی اِسے نہایت ضعیف قرار دیا ہے۔(سنن ابن ماجہ بتحقیق الشیخ الالبانی ،رقم :216۔صحیح وضعیف سنن الترمذی ،البانی ،رقم:2905)
غرضیکہ سند کے اعتبار سے موضوع ِبحث روایت غیر ثابت شدہ ہے۔چنانچہ اِس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کا استناد قطعا ثابت نہیں ہوتا۔ اِسے آپ کی نسبت سے بیان کرنا درست ہے،نہ اِس کی بنیاد پر کوئی فضیلت ہی مانی جاسکتی ہے۔
پھر اِس روایت کا مضمون چونکہ قرآنِ مجید میں مذکور نجاتِ آخرت کی صریح شرائط سے بھی متصادم ہے،چنانچہ اِس خبر واحد کی کوئی سند فرض کر لیا جائے کہ ثابت بھی ہوتی،تب بھی درایتِ متن کے لحاظ سے بھی یہ روایت کسی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتی تھی۔
اِس تفصیل سے ثابت ہوا کہ حفظِ قرآن کی فضیلتِ مسئولہ کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔
مجیب: Muhammad Amir Gazdar
اشاعت اول: 2015-10-16