سوال
میری بہن کو اس بات کا بہت گلہ ہے کہ قرآن نے مردوں ہی کو کیوں زیادہ مخاطب کیا ہے، جبکہ خواتین زیادہ نازک اور حساس طبیعت کی مالک ہوتی ہیں۔ انھیں اسلام میں دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے وہ مردوں کے برابر ہیں۔کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ جنت میں عورتوں کو ملنے والی نعمتوں کو عورتوں ہی کے حوالے سے بیان کیا جاتا، جیسا کہ مردوں کے لیے حوروں کا ذکر کیا گیا ہے؟
جواب
اللہ تعالیٰ اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے کوئی نئی زبان ایجاد نہیں کرتے، بلکہ جس قوم میں وہ اپنا پیغام نازل کرتے ہیں، اسی کی زبان کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ دنیا کی زبانوں میں مرد و عورت کو مشترک طور پر مخاطب کرنے کے لیے مذکر ہی کا صیغہ استعمال کیا جاتاہے۔ چنانچہ جب قرآنِ مجید یہ صیغہ استعمال کرتا ہے تو عورتیں مردوں کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔
یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ مردوں کے لیے جنت کی کچھ خاص نعمتیں ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی اسی طرح جنت کی نعمتیں ہیں جس طرح مردوں کے لیے ہیں۔ جہاں تک ازواج کا تعلق ہے تو اس کے لیے قرآن نے ازواجِ مطہرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طرفین کے لیے پاکیزہ جوڑے ہوں گے۔ اس کے بجائے اگر یہ بات کہی جاتی کہ وہاں عورتوں کو دس دس مرد ملیں گے تو آپ خود سوچیے کہ کیا یہ کوئی شایستہ اسلوب ہوتا؟میرا خیال ہے کہ ہماری بہنوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عفت کا لحاظ کرتے ہوئے ساری بات ایک جملے میں بیان کر دی ہے ۔
مجیب: Javed Ahmad Ghamidi
اشاعت اول: 2015-06-25